Monday, January 29, 2018


ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کیجئے۔۔۔ انشاء اللہ فروری کے مہینے میں باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا جائے گا

https://amzn.to/2MHSuLr

Sunday, May 28, 2017

Swat Sahar wa Aftar

SwatPakistan 


Saturday, May 27, 2017 - Sunday, June 25, 2017
NoDaySuhur
Fajr
SunriseZoharAsrIftar
Magrib
Isha
27Sat03:1605:0012:0815:5619:1821:01
28Sun03:1504:5912:0915:5719:1821:02
29Mon03:1404:5912:0915:5719:1921:03
30Tue03:1404:5812:0915:5719:2021:04
31Wed03:1304:5812:0915:5719:2021:05
1Thu03:1204:5812:0915:5719:2121:06
2Fri03:1204:5712:0915:5719:2221:07
3Sat03:1104:5712:0915:5819:2221:08
4Sun03:1104:5712:1015:5819:2321:09
5Mon03:1004:5712:1015:5819:2321:10
6Tue03:1004:5612:1015:5819:2421:10
7Wed03:1004:5612:1015:5819:2421:11
8Thu03:0904:5612:1015:5919:2521:12
9Fri03:0904:5612:1115:5919:2521:12
10Sat03:0904:5612:1115:5919:2621:13
11Sun03:0804:5612:1115:5919:2621:14
12Mon03:0804:5612:1116:0019:2721:14
13Tue03:0804:5612:1116:0019:2721:15
14Wed03:0804:5612:1216:0019:2821:15
15Thu03:0804:5612:1216:0019:2821:16
16Fri03:0804:5612:1216:0019:2821:16
17Sat03:0804:5612:1216:0119:2921:17
18Sun03:0804:5612:1216:0119:2921:17
19Mon03:0804:5612:1316:0119:2921:17
20Tue03:0804:5612:1316:0119:2921:17
21Wed03:0904:5712:1316:0219:3021:18
22Thu03:0904:5712:1316:0219:3021:18
23Fri03:0904:5712:1416:0219:3021:18
24Sat03:0904:5712:1416:0219:3021:18
25Sun03:1004:5812:1416:0219:3021:18

Monday, March 20, 2017

کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟

کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟
تحریر: فرہاد علی
(حصہ دوم)
اسی عنوان کے تحت پچھلے کالم میں ہم نے مذہبی خصوصا فرقہ پرست مولویوں کی غلامی میں گرفتار لوگوں کا تذکرہ کیا تھا ۔ آج ہم سیاست دانوں کے بے دام غلاموں کو زیر بحث لائیں گے ۔
ربط و تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے سابقہ  کالم کا سرنامہ دوبارہ پیش خدمت ہے ۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ "جسمانی طور پر ہم میں سے ہر شخص آزاد ہے مگر تقریبا ہر ایک نے اپنی فکر اور عقل کسی نہ کسی کے پاس گروی رکھی ہے ۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے . عام طور پر جب فکری غلامی کی بات آتی ہے تو ہم انگریز اور انگریزی نظام کی بات کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تک انہیں خطوط پر استوار ہے جن کی بناء انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ ہمارا نظام عدلیہ انہیں کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ ہماری بیوروکریسی میں وہی سوچ برقرار ہے ۔ یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور یہ ہمارا قومی سطح کا فکری بحران ہے مگر اس کے علاوہ ہم انفرادی اور نچھلی سطح پر بھی فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور یہ غلامی  زندگی کے ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے "
سیاست کے میدان میں اس غلامی کی داستانیں روز رقم ہوتی ہیں ۔ یہاں ایم کیو ایم کے سابق رہنما پاک سرزمین پارٹی کے بانی  مصطفی کمال کی ایک بات یاد آتی ہے ۔ مصطفی کمال کہتے ہیں کہ الطاف حسین اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کسی مخالف کے بارے میں کہتے تھے کہ فلاں  کو ٹوک دو ۔ یہ بیان میڈیا پر براہ راست چل رہا ہوتا ۔ جب میڈیا سے ہوتے ہوئے اس پر ہنگامہ کھڑا ہوتا تو ہم پوری پوری رات بیٹھ کر ڈکشنریاں چھانتے اور ٹوک دو کہ معنی ڈھونڈتے تاکہ اس کو صحیح ثابت کیا جا سکے ۔ یہی حالت ہر سیاسی کارکن کی ہے چاہے اس کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہو یا سیکولرزم کے علمبردار جماعتوں سے ہو ۔ اگر مولانا فضل الرحمن ایک بار کہہ دیں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے تو جمعیت کا ہر کارکن اس کو ثابت کرنا اور حرف آخر سمجھنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے لئے گھنٹوں بیٹھ کر بحث کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ چاہے اس کارکن کو عمران خان کے بیک گراوںڈ کا سرے سے علم ہی نہ ہو ۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات بھی عرض کردوں کہ ہم باہمی اختلافات کو ہمارے معاشرے کی روایتی ساس کی طرح اس نہج پر لے کر جاتے ہیں جہاں سے واپس لوٹنے کے راستے مسدود ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے لیڈروں کو سپورٹ کرنے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کو اگر اسی لیڈر نے مخالفین کے ساتھ اتحاد کی حامی بھرلی تو ہم دنیا کو اپنے سابقہ رویے کے بارے میں کیا منہ دکھائیں گے ۔ چنانچہ جب مولانا فضل الرحمن نے یہ کہا کہ ہر ایجنٹ غدار نہیں ہوتا اور جمعیت اور پی ٹی آئی نے بلدیاتی انتخابات میں بعض حلقوں میں اتحاد کیا تو دونوں پارٹیوں کے ان کارکنان کی حالت دیکھنے کی تھی جنہوں نے مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے اختلاف کو ذاتی جھگڑے کی طرح پیش کیا تھا ۔ ایسے لوگوں کی حالت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی تھی ۔

اسی طرح اگر عمران خان گھر آنے والے مہمانوں کی بے عزتی کرکے ان کو پھٹیچر کہہ دیں تو ہر انصافی اس کو عین حق سمجھنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے ۔ یہی حالت مراد سعید اور جاوید لطیف کے حالیہ جھگڑے کے وقت دیکھنے کو ملی ۔ بہت سارے ن لیگی کارکن جاوید لطیف کو سپورٹ کرتے دیکھے گئے حالانکہ انہوں نے انتہائی گھناونا طرز عمل اختیار کیا تھا ۔ جبکہ ایسے انصافی بھی کم نہیں تھے جنہوں نے مراد سعید کو فرشتہ ثابت کیا ۔ اس موقع پر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مراد سعید کی ماضی میں کی گئی زبان درازیوں پر تنقید کرتا ۔ یہی صورت حال ہر پارٹی کے کارکنان کی ہے ۔ پاکستان کو کھوکھلا کرنے والی پیپلز پارٹی کے جوشیلے عقیدت مند آج بھی جناب زرداری صاحب کو اس ملک کا آخری نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔
جب ایک پارٹی کوئی اچھا قدم اٹھاتی ہے تو مخالف پارٹی کا لیڈر اس کے کارنامہ کو کم تر ثابت کرنے کے لئے اس کا مذاق اڑاتا ہے جس طرح غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہہ کر ن لیگ کے مثبت اقدام کا مذاق اڑایا گیا ۔ اگر ہم فکری غلام نہ ہوتے تو اس موقع پر اپنے لیڈر سےاختلاف کرتے اور دوسری پارٹی کے اچھے اقدامات کی تحسین کرتے مگر ہم میں سے ہر کارکن اپنے لیڈر کے دماغ سے سوچتا ہے اور اسی کی بولی بولتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم نے اپنی عقل اور فکر اپنے لیڈروں کے پاس گروی رکھی ہے اور ہم سیاسی لیڈروں کے بے دام غلام ہیں ۔ جب ہم خود اپنی عقل سے سوچتے نہیں ، اپنی آنکھوں سے دیکھتے نہیں اور اپنی زبان سے بولتے نہیں تو یہی سوال سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟

Sunday, March 19, 2017

دعا



دعا
تحریر: عظیم الرحمن عثمانی
جن افراد کے بارے میں ہمیں نیک ہونے کا گمان ہوتا ہے انہیں ہم اپنے لئے دعا کا کہتے ہیں. اسی طرح اس بات کو بھی قبول عام حاصل ہے کہ بچوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے. وجہ یہی کہ بچے نسبتاً معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہوتے ہیں. گویا ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی اللہ کے بندے کے گناہ کم اور نیکیاں زیادہ ہوں تو اس کی دعا کی قبولیت کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے. اب اگر میں آپ سے کہوں کہ ایک راستہ ایسا بھی ہے جس کے ذریعے ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں اللہ کے ایسے بندے آپ کیلئے دعا گو ہوجائیں گے جو گناہوں سے مکمل پاک ہیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ مجھے یقین ہے کہ ہر عقلمند اور صاحب ایمان ایسے راستے کو لپک کر اپنانا چاہے گا.
 دوستو متعدد احادیث صحیحہ میں یہ مضمون معمولی رد و بدل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے خیر و فلاح کی کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کہتے ہیں۔ وَلَکَ مِثْلُ ذاَلِکَ یعنی اللہ کے بندے، یہی چیز اللہ تعالیٰ تجھے بھی عطا فرما دے۔ یعنی ہر مسلمان کے لیے کسی بہتری کی دعا کرنا، درحقیقت فرشتوں سے اپنے لیے بھی دعا کرانے کی ایک یقینی تدبیر ہے۔ سوچیں کہ ملائکہ سے زیادہ ہم میں سے کون عبادت گزار ہے اور کون گناہوں سے پاک ہے ؟ پھر کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ ملائکہ آپ کے لئے دعا گو ہوا کریں؟ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آدمی کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں ردّ نہیں ہوتی یعنی ضرور قبول کر لی جاتی ہے۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ اپنے بھائی یا کسی اجنبی کیلئے اس کے پیٹھ پیچھے جب دعا مانگی جاتی ہے تو اس میں محبت و اخلاص کی موجودگی لازمی ہوتی ہے. غور کیجیئے تو آپ صرف ان ہی کیلئےعموماً دعا کر پاتے ہیں جنہیں اپنے دل سے قریب پاتے ہیں. افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوسروں کیلئے دعا کرنے کے معاملے میں بخل یعنی کنجوسی سے کام لیتے ہیں. شائد دعا کے عین درمیان بھی ایک خاص قسم کی خود غرضی ہم پر غالب ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کیلئے کیوں دعا کریں؟ یہی وقت اپنے لئے دعا کیوں نہ کرلیں؟ تو میرے بھائی جان لیں کہ ہمارا رب بہت غنی ہے وہ اس ادا پر اور بھی نوازتا ہے کہ اس کا ایک بندہ اسکے کسی دوسرے بندے کی حاجت کو محسوس کرکے خیر کی دعا مانگ رہا ہے.
 اسی تناظر میں ایک قیمتی نصیحت آپ کو بتاتا ہوں جو میری اپنی زندگی کا مستقل حصہ ہے. میں جب بھی کسی کی ترقی دیکھتا ہوں، اسے خوش دیکھتا ہوں، کامیاب دیکھتا ہوں یا اسے حاصل کسی نعمت کو دیکھتا ہوں تو فوری دل سے اس کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے مزید برکت دے اور نظر بد سے محفوظ رکھے. اس میں یہ قید نہیں ہے کہ میں فرد کو جانتا ہوں یا نہیں. مجھے اگر کوئی زبردست گاڑی بھی روڈ پر چلتی نظر آئے تو فوری اس کے لئے برکت اور حفاظت کی دل سے دعا کرتا ہوں. حالانکہ میں میں اس گاڑی کے مالک سے زندگی میں کبھی نہیں ملا. آپ بھی اس عادت کو فوری اپنا لیجیئے. جس کو بھی کسی نعمت میں دیکھیں جو آپ کو حاصل نہیں تو اس کیلئے دل سے دعا کریں کہ یا اللہ میرے اس بھائی کی حفاظت کیجیئے اور اسے نظر بد سے بچائیں اور اسکی اس نعمت میں مزید اضافہ فرمائیں. آمین. شروع میں ایسا کرنا طبیعت پر ممکنہ طور پر بھاری گزرے گا مگر آہستہ آہستہ یہ اچھی روش آپ کی شخصیت کا جزو بن جائے گی. اس کی وجہ سے آپ کو کم از کم تین بڑے فائدے ہونگے. پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح آپ کبھی بھی کسی کے حسد میں گرفتار نہیں ہونگے ان شاء للہ. دوسرا فائدہ یہ کہ آپ کی شخصیت مثبت سے مثبت تر ہوتی چلی جائے گی اور آخری یعنی تیسرا فائدہ یہی کہ نیک ملائک آپ کیلئے دعا گو ہوجائیں گے.

 ====عظیم نامہ====

Thursday, March 16, 2017

کیا آپ جانتے ہیں کہ ISO کیا ہے؟



انٹرنیشنل سٹینڈرڈ آرگنائزیشن(ISO)

کیا آپ جانتے ہیں کہ ISO کیا ہے؟

ہر کمپنی یہی چاہتی ہے کہ اس کا کاروبار خوب پھلے پھولے اور اس کے پراڈکٹس کو مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل ہو۔ گاہک بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک ایسی کمپنی کا مال خریدیں جس کی کوالٹی سٹینڈرڈ ہو۔کمپنیاں اس چیز کو ٹوٹل کوالٹی منیجمنٹ (TQM) کا نام دیتی ہیں۔کمپنی جب یہ سوچتی ہے کہ اس کے پراڈکٹس کو مارکیٹ میں پذیرائی حاصل ہو تو اس کے لیے کمپنی اپنی پیداواری مصنوعات کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔لیکن کوالٹی کی بہتری کا تصور ہر ایک آدمی کا اپنا ہوتا ہے جو ایک دوسرے بہت مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلا ایک سٹورکیپر پراڈکٹ کی کوالٹی کو جس طرح بہتر تصور کرتا ہے گاہک شایداس سے الگ طور پر اسے بہتر قرار دینے پر مصرہو۔
اس مقام پر’’ آئی ایس او 9000‘‘کام آتا ہے۔ یہ اصطلاح عالمی معیارات کے ایک سلسلے کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ کوالٹی کی ضمانت کی تعریف مہیا کرتا ہے۔ یہ نظام انٹرنیشنل آرگنائزیشن فاراسٹینڈرڈائزیشن (آئی ایس او)نے بنایا ہے اور دنیا میں 90ملکوں نے اسے اپنایا ہے۔ آئی ایس او میں تقریباً 100ممالک کے قومی معیارات کے نمائندگان شامل ہیں۔ اس ادارے کا مقصد دنیا بھر میں مصنوعات اور خدمات کے بین الاقوامی تبادلے کو فروغ دینا ہے اور دنیا بھر میں دانشورانہ، سائنسی، تکنیکی اور معاشی معاملات میں بین الاقوامی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ 
آئی ایس او(ISO) کا تعارف:
یہ ادارہ بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تاکہ تجارت کے معیار کو بہتر رکھا جاسکے اور ایک اچھے طریقے سے چیزوں کی پیداوار ہو۔
23 فروری 1947ء کو اس آرگنائزیشن نے بین الاقوامی انڈسٹری کے لیے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ اس آرگنائزیشن کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں ہے۔ 2013ء تک 164 ممالک میں اس تنظیم کا دائرہ کار وسیع ہوچکاہے۔ یہ پہلی تنظیم ہے جو بین الاقوامی اقتصادیات کے فروغ کے لیے عمل میں لائی گئی۔
ISO ایک غیر سرکاری ادارہ ہےاور اب تک اس کے ممبر ممالک کی تعداد 164 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ادارہ دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کے درمیان بہترین تجارت کے فروغ اور اس راستے میں پیش آنے والے مسائل کا حل نکالتا ہے۔ اس ادارے نے اب تک 20،000 کے قریب معیاری اشیاء کی تجارت کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا ہے جس میں فوڈ سیفٹی پروگرام کے علاوہ زراعت اور صحت کے مسائل بھی شامل ہیں۔

Wednesday, March 15, 2017

کیا ہم آزاد ہیں؟؟


کیا ہم آزاد ہیں؟؟
تحریر: فرہاد علی

 جسمانی طور پر ہم میں سے ہر شخص آزاد ہے مگر تقریبا ہر ایک نے اپنی فکر اور عقل کسی نہ کسی کے پاس گروی رکھی ہے ۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے . عام طور پر جب فکری غلامی کی بات آتی ہے تو ہم انگریز اور انگریزی نظام کی بات کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تک انہیں خطوط پر استوار ہے جن کی بناء انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ ہمارا نظام عدلیہ انہیں کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ ہماری بیوروکریسی میں وہی سوچ برقرار ہے ۔ یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور یہ ہمارا قومی سطح کا فکری بحران ہے مگر اس کے علاوہ ہم انفرادی اور نچھلی سطح پر بھی فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور یہ غلامی  زندگی کے ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
 مذہب کا  معاملہ ہو تو ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کے واضح احکامات میں یہ وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا گردان کرتے ہیں لیکن اپنے پسندیدہ مذہبی سکالرز کو عصمت کے مسند پر بٹھا دیتے ہیں جس سے کوئی غلطی ہو سکتی ہے نہ کوئی علمی خطاء ۔ اگر یہ مذہبی سکالر بدقسمتی سے مناظر بھی ہوا تو اس کا علمی مقام امام ابو حنیفہ رح ، امام جعفر صادق رح ، امام ابن تیمیہ رح اور امام احمد رضا خان بریلوی رح سے کم سمجھنا اس کی توہین ہوگی ۔
 یہاں میں آپ کو عجیب صورت حال کی دلچسپ کہانی سناتا ہوں ۔ مولانا قاسم صاحب شیرگڑھ مدرسہ کے مہتمم اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں میں شامل ہیں ۔ اس کی للہیت ، اخلاص اور خدمت دین کی ایک دنیا گواہ ہے ۔ ان کے شاگرد بلاشبہ ہزاروں میں ہیں ۔ اپنے علاقے شیرگڑھ سے بدعات کے خاتمے میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ چند دن پہلے میں نے ایک دینی مدرسہ کا اشتہار دیکھا ۔ یہ اشتہار دیکھ کر میرا دل دکھ و درد سے بھر گیا ۔ اس اشتہار میں مولانا قاسم صاحب اور شیرگڑھ کے دیگر  حدیث کے اساتذہ کا نام کونوں میں چھوٹے چھوٹے لکھے ہوئے تھے جبکہ ایک نئے نئے "مناظر اسلام" کا نام درمیان میں پورے اشتہار میں نمایاں تھا حالانکہ اس صاحب کے اساتذہ بھی مولانا قاسم کے شاگرد ہوں گے اور میرا گمان ہے کہ ان کی عقل کی ڈاڑھ بھی نہیں نکلی ہوگی ۔  نیز اس مناظر کی خدمت دین کا حال یہ ہے کہ آئے روز ان کی برکت سے ہمارے آس پاس کے علاقوں میں اہلحدیث ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے جھگڑے ہو رہے ہیں ۔ یہ جھگڑے گھروں میں بھی جاری ہیں  اور گاوں محلہ کی سطح پر بھی ۔
  ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ نام بڑا یا چھوٹا لکھنے سے بھلا کیا ہوتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ نام کا نہیں بلکہ اس سے واضح ہونے والے رجحان اور اہمیت کا ہے ۔ اشتہارات میں انہیں کا نام بڑا لکھا جاتا ہے جن کی قدر ومنزلت نگاہوں میں نمایاں ہو ۔ یہاں مجھے عوام الناس سے بھی ایک گلہ کر لینے دیجئے کہ ان کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرہ میں پنپتے ہیں اگر عوام ان کو سننے نہیں جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو کیا ایسے لوگ معاشرے میں آگے بڑھ سکیں گے ؟؟ اس کا جواب یقینا نہیں میں ہے تو پھر عوام الناس کو اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ تمام علماء پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا جائے ۔ یہ طرز عمل تو گمراہی تک لے جانے والا ہے البتہ جس طرح ہم بیماری کے علاج کے لئے اچھے ڈاکٹر اور تعلیم کے بہترین استاذ کھوجتے ہیں اسی طرح ہمیں حق شناس علماء بھی ڈھونڈنے چاہئے اور علماء کے بھیس میں تفرقہ ڈالنے والوں سے ہوشیار رہنا چاہئے ۔
 بہرحال اتنی بات واضح ہے کہ ہم قومی سطح پر ہی نہیں نجی سطح پر بھی سخت فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ غلامی ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائی جاتی ہے ۔ مذہب کے علاوہ جس میدان میں غلامی کی زنجیروں نے ہمارے قلوب و اذہان کو سب سے زیادہ جھکڑ کر رکھا ہے وہ سیاست کا میدان ہے لیکن کالم کا دامن محدود ہے اس لئے اس موضوع پر اگلی نشست میں بات کریں گے ان شاء اللہ ۔

Tuesday, March 14, 2017

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟


توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟

تحریر: محمد بلال فاروقی
کیا کبھی کسی مسلمان نے اس نکتے پر بھی غور کیا ہے ؟ کہ توہین رسالت ہوتی کیوں ہے؟ عرب کا وہ معاشرہ جو جہالت اور خون ریز لڑائیوں کے سبب زنگ آلود ہوچکا تھا اس معاشرہ میں امن و سکون و انسانیت کا پھریرا لہرانے والے میرے اور آپ کے عظیم نبی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے
 جن کے راستے مسدود کئے گئے، لیکن وہ رب کے بندوں کو رب کی طرف بلانے سے نہیں رکے، آقائے دوجہاں ﷺ  کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے تو آپ نے ان کانٹوں کو خود راستے ہٹا دیا کہ کسی اور کی تکلیف کا سبب نہ بنیں
آقائے دوجہاں ﷺ کو گالیاں دی گئیں آپ نے جواب میں دعائیں دیں، آپ ﷺ  کا شعب ابی طالب میں اپنوں نے بائیکاٹ کیا لیکن آپ نے فرمایا تین دن سے زیادہ کسی سے قطع تعلقی نہ کی جائے،
لیکن افسوس کہ جو رویہ چودہ سو سال قبل کفار مکہ کا امام الانبیاء ﷺ کے ساتھ تھا آج وہی رویہ مسلمانوں کا غیرمسلموں کے ساتھ ہے، ہم نے اپنے ملکوں اور ریاستوں میں مذہب کو اتنا تقسیم کردیا کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوگئے اور غیر مسلم جنہوں نے قرآنی اصولوں کے مطابق اپنے ممالک امن یافتہ بنائے ہمیں ان کا امن بھی ہضم نہیں ہوا ، اور اسلام  جو اپنے معانی میں سلامتی لئے ہوا تھا اسے اپنے جسم پر نافذ کرنے کی بجائے ہم نے اپنے جسموں پر آگ باندھی اور کود پڑے غیرمسلموں کے درمیان،
جہاد جو کہ قیام امن کے لئے کیا جاتا ہے، قوموں کو عروج دینے کے لئے کیا جاتا تھا، جس کا مقصد ذلت کی پستیوں سے حضرت انسان کو نکال کر کامیابی کی طرف لے جانا تھا اس جہاد کو ظلم بنا دیا گیا،
کیا اس وقت دنیا کا کوئی بھی مسلمان کوئی ایک مسلم عالمی رھنماء دکھا سکتا ہے کہ یہ ہمارا مسلم رھنماء ہے یہ اسلام کی عملی تصویر ہے ہم اس اسلام کی بات کرتے ہیں، یورپ نے اپنی اقوام کو لیڈر دئیے، رھنماء دئیے مغرب نے اپنی ریاستوں کو دیانت لیڈر دئیے مسلمان نے دیانت کا سبق یاد تو کیا اس بتایا نہیں گیا کہ عمل بھی کرنا ہے، ہمیں یہ تو پڑھایا گیا کہ راستے چلتے چڑھائی چڑھتے اللہ اکبر کہو نیچے اترتے سبحان اللہ کہو لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ راستے کشادہ کرو، راستے میں رکاوٹیں نہ آنے دو ، راستے میں ملنے والے کسی بھی انسان سے مسکرا کر ملو، ہمیں یہ تو سکھایا گیا کہ نماز پڑھو، لیکن یہ نہیں سکھایا گیا کہ پانچ وقت اپنی مسجد میں بلا کر اپنے سامنے کھڑا کردینے والا رب ہمیں بتا رہا ہے کہ انسانی مساوات زندگی کی سب سے اھم چیز ہے، ہمیں یہ تو بتا دیا گیا کہ کفار کے خلاف لڑنا فرض عین ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمارا نبی ﷺ تو راستے مسدود کرنے والے کفار کی بیماری پر بھی ان کی عیادت کے لئے جایا کرتا تھا،
ہمین یہ تو بتایا گیا کہ "کنتم خیر امت اخرجت للناس" کے تحت ہم سب سے افضل امت ہیں ہم بخشے بخشائے ہیں ہم اچھا کریں یا برا کریں ہمیں قیامت کے دن حوض کوثر ملے گا ہم عمل کریں یا نہ کریں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمارے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر دعائیں کی ہیں کوئی ٹینشن نہیں لیں،
مسلمانوں
میرا اور آپ کا نبی ﷺ جو سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر آیا اس کی رحمت کیا تھی ؟
مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام بطور مذہب اور دین کے کامیاب ترین مذہب و دین ہے لیکن مسلمان بطور مسلمان کی سب سے ناکام ترین امت بن چکی ہے، ہم نے اپنے آقا ﷺ کی زندگی ان کی سیرت مبارکہ کو اپنے اعمال کے نزدیک بھی پھٹکنے نہیں دیا، انہوں نے ہمیں جھوٹ سے منع کیا ہم نے جھوٹ بول کر کام کرنے کی قسم کھائی، آقا ﷺ نے ہمیں صلہ رحمی سکھائی ہم توڑنے پر عمل پیراء رہے، آقا ﷺ نے ہمیں غیرمسلموں کو اسلام کا فلسفہ امن سمجھا کر مسلمان بنانے کی تلقین کی ہم نے مسلمانوں پر بھی اسلام کے دروازے بند کئے،
ہم نے کیا کیا ہے اگر بطور پاکستانی مسلمان بھی دیکھا جائے تو ہم نے ہمیشہ "بند" ہی کیا ہے، ہم نے پڑوسیوں سے تعلقات "بند" کرکے "بارڈر بند" کئے، ہم نے کفر کے فتووں کے دروازے کھول کر اسلام میں داخلے کے دروازے بند کئے، ہمارے اذہان میں پیدائش سے یہ بات بھر دی گئی کہ ہم سب سے افضل ترین امت یا قوم ہیں، اس لئے اب ہم عمل کریں یا نہ کریں لیکن یہ فخر اور غرور ہم سے ٹوٹنا گوارہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب بھی توہین رسالت کا جرم ہوتا ہے تو "ضرب انانیت" پر لگتی ہے، "ضرب اس احساس تفاخر" پر لگتی ہے جس سے ہم دنیا کے ہر دوسرے مذہب کے ماننے والے کو اپنے سے کم تر و گھٹیا سمجھتے ہیں،
میرے بھائی آؤ سب کچھ بند کردو
بارڈر بند کردو
سوشل میڈیا بند کردو،
غیر مسلموں سے تعلقات بند کردو،
امن کی بات کرنے والوں سے صلح بند کردو ،
پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کی بات کرنے والے سے بات کرنا بند کردو،
ہم سب میں آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن صرف ایک کام اور بھی کرلو
مروجہ روایتوں کو توڑ کر اپنے نبی ﷺ کی نافرمانی کرنا بھی بند کردو،
یاد رکھو دنیا دور سے دیکھ کر کہے گی وہ دیکھو "مسلمان آرہا ہے محمد ﷺ کا غلام آرہا ہے"
پھر نہ تو گستاخی ہوگی نہ آپ کی انانیت پر آنچ آئے گی،

Monday, March 13, 2017

قوموں کا عروج وزوال


قوموں کا عروج وزوال 

رواداری کی رِیت اور ایام کی الٹ پھیر:
یہود ونصاریٰ اور بدھ مت کے پیروکاروں سمیت سارے مذاہب نے لوگوں کو رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان کرنے کی تلقین کی ہے۔ تاہم اسلام نے اس کی جو تعلیم فرمائی ہے وہ اپنی ذات میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے تعلیم ہی نہیں اپنے پیروکاروں کی عملی تربیت بھی فرمائی۔ ایسی تربیت جو دنیا کو امن وسکون اور آشتی کا گہوارہ بناگئی۔ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے دنیا میں جب اسلام کا ڈنکا بجایا تو پر امن زندگی کے ساتھ ساتھ قانون کی ایسی بالادستی عمل میں آئی جس سے روگردانی کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ ایک وہ دورتھا جب حق دار کو اس کا حق اسی صورت مل سکتا تھا جب اس کے پاس افرادی اور مادی قوت کی فراوانی ہوتی تھی۔ جو اس سے محروم تھا اسے اپنے حق سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔ عورت ذات کی کوئی حیثیت نہیں تھی نہ اس کو متمدن زندگی گزارنے کا کوئی اختیار حاصل تھا۔ اس کی حیثیت محض ایک رکھیل کی سی ہوتی تھی جس کو استعمال کرکے ویسے ہی چھوڑدیا جاتا ہے۔ اسلام نے جب اپنے ضوفشاں کرنیں انحائے عالم میں پھیلائے تو قوموں کو سکون آگیا۔ مظلوموں کی داد رسی ہوئی۔ ظالم کی تلوار نیام میں چلی گئی۔ عورت کو انصاف اور اپنے حق کے حصول میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ عدل کا بول بالا ہوگیا۔ دنیا ایک سنہرے دور میں داخل ہوگئی۔
دنیا کے اس کھلواڑ میں غالبیت کسی ایک قوم کو ہمیشہ کبھی حاصل نہیں رہی۔ اس میدان میں آج کسی ایک نے بازی جیتی تو کل کوئی اور آکر بازی اپنے نام کرگیا۔ ہار جیت اور غالب ومغلوب کا یہ کھیل جاری ہے اور جاری ہے گا۔ قوموں کی باہمی کشمکش اور عروج وزوال کی یہ رِیت اپنے آپ کو دہراتی رہے گی۔ قرآن کریم نے اسی بازی گری کا نقشہ نہایت احسن انداز سے کھینچا ہے:
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ [آل عمران: 140]
یہی دن ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے ہیں۔
یورپ کل اور آج:
مولانا ندوی صاحبؒ رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault) کے حوالے سے لکھتے ہیں:
            "پانچویں صدی سے لے کر دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔اور یہ تاریکی تدریجا گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی۔اس دور کی بربریت اور وحشت زمانہ قدیم کی وحشت سے کئی درجہ زیادہ بڑھی چڑھی تھی۔کیوں کہ اس کی مثال ایک بڑے تمدن کی لاش کی تھی جو سڑ گئی ہو۔اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے۔اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔وہ ممالک جہاں یہ تمدن برگ وبار لایا اور گزشتہ زمانے میں اپنی انتہائی ترقی کو پہنچ گیا تھا جیسے اٹلی وفرانس ،وہاں تباہی اور طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور دورہ تھا"
یورپ کی اس حالت کا نقشہ تو رابرٹ نے کھینچا اور اس کے زعم میں آج یورپ کچھ زیادہ متمدن اور بامہذب ہے۔ لیکن اگر بنظر غائر آج کے یورپ کا مطالعہ کیا جائے تو محض مادی ترقی کے علاوہ یورپ میں تہذیب کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہاں آج بھی ہر اس ناجائز کام کو قانونی سرپرستی حاصل ہے جو تہذیب کے دائرے سے ہٹ کر ہو۔ ہر اس فعل کو انہوں نے حرز جاں بنالیا ہے جس میں اخلاقیات کی حدیں بری طرح پامال ہوتی ہوں۔
روم کی کہانی:
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کے معاشی نظام اور بہترین طرز حکومت میں نہیں بلکہ ترقی کے میدان میں اخلاقیات کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ رابرٹ بریفالٹ نے رومی سلطنت کے زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے:
            رومی سلطنت کے زوال کا سبب وہاں بڑھتی ہوئی خرابیاں نہ تھیں،بلکہ اصل برائی اور خرابی فساد وشر اور حقائق سے گریز کرنے کی عادت تھی۔ جو اس سلطنت کے قیام میں روز اول سے ہی موجود تھی۔ کسی بھی انسانی ڈھانچے کی تعمیر جب اس طرح کے کمزور بنیادوں پر کی جائے گی تو اس کے گرنے سے صرف ذہانتیں اور منصوبہ بندیاں اسے نہیں بچا سکتی۔رومی سلطنت ایک چھوٹے سے طبقے کی راحت رسانی کے لیے عمل میں آئی تھی جس کے حصول کے لیے اس چھوٹے طبقے نے عوام کا ہر طرح سے استحصال کیا۔ روم میں تجارت کی ترقی اور اس میں نئی راہیں پیدا کرنے کا گر ضرور موجود تھا لیکن ان خوبیوں کی وجہ سے بنیادی طور پر کمزور معاشرے کو تباہی سے بچایا نہیں جاسکا۔(ص70)
چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لیے نظریاتی سرحدات کا مضبوط ہونا ازحد ضروری ہے۔ ورنہ اس معاشرے کو کوئی بھی طاقت زوال سے نہیں بچا سکتی۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ باطل میں سرے سے ابھرنے کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ اگر کبھی دیکھو کہ باطل ابھر رہا ہے تو سمجھو کہ ضرور اس نے کچھ خوبیاں اہل حق کی اپنائی ہیں۔ آج مغرب کی روزافزوں ترقی کو دیکھا جائے تو یہی بات برحق معلوم ہوتی ہے کیوں کہ وہاں کے سارے قوانین ان اصولوں پر مبنی ہیں جو دراصل اسلام کی دَین ہیں۔ لیکن چونکہ بے حیائی کے کلچر نے وہاں کے معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے اخلاقیات بری طرح زوال کی طرف گامزن ہیں۔
اسی طرح مولانا ندوی صاحب ڈاکٹر الفٹ بٹلر کے حوالے سےمصر میں قائم رومی حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں:
            مصر میں رومی حکومت کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ کسی طرح عوام کی دولت کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے حاصل کیا جائے۔مصر میں ان کومحکوموں کی معیار زندگی کی بلندی اور ان کی معاشی واخلاقی ترقی کا ذربرابر بھی خیال نہ تھا۔مصر میں رومیوں کی حکومت ان پردیسیوں کی سی تھی جو اپنے محکوموں کے ساتھ صرف جبر کا رویہ اپنانے کو روا رکھتے ہیں اور ان کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔(ص 71)
عالم اسلام نا اہل لیڈروں کے نرغے میں:
متعصب اور قوم پرست لیڈر جب اپنی قوم کو گرماتے ہیں تو ان میں ڈر اور نفرت پیدا کرتے ہیں۔وہ انہی دو چیزوں سے قوم کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔عصبیت اور قوم پرستی کی عفریت نے اسلامی دنیا کو اپنے پنجے میں اس طرح جکڑ کر رکھا ہے کہ اب اس سے نکلنابھی کارے دارد ہے۔ آج بھی بعض اسلامی ممالک میں برادر اسلامی ملکوں کے باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جبکہ وہی لوگ غیر اقوام کے سامنے بچھے جارہے ہوتے ہیں۔ اسلام نے عصبیت کی  کس قدر مذمت کی ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جاسکتا ہے:

اسلام نے عالم انسانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک خدا کے پیرو اوی حق کے حامی، دو شیطان کے پیروکار اور باطل کے حامی۔اسلام نے صرف شیطان کے پیروکاروں اور ظالموں، فسق وفجور اور سرکشی کرنے والوں سے نفرت کرنے اور ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ نفرت اور جنگ کے لیے اسلام نے باونڈری اور سرحدات وخطہ ہائے ارضی کو بنیاد نہیں بنایا بلکہ اس کی بنیاد عقائد واعمال اور انسانیت کے لیے نفع ومضرت پر ہے۔
امت مسلمہ کی قیادت کی ذمہ داریاں:
شیر شاہ سوری (م 952ھ) اپنے نظام الاوقات کا بڑا پابند تھا۔ اس کو پانچ برس کے لیے حکومت ملی لیکن اس زمانے میں اس نے بڑے بڑے کام کیے۔ نظام الاوقات کچھ یوں تھا کہ تہائی رات کی بیداری پر غسل کرتے اور اس کے بعد نوافل ادا کرتے۔ فجر سے پہلے اوراد ووظائف ختم کرتے۔ پھر امور سلطنت میں حسابات کی جانچ پڑتال کرتے اور افسروں کو ضروری ہدایات دیتے۔ فجر کی نماز کو باجماعت اداکرنے کے بعد مسنون اذکار کا اہتمام ہوتا۔ اتنے میں ارکان سلطنت حاضر ہوجاتے اور دن کے باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوتا۔ دربار میں لوگ حاضر ہوتے ان کی ضروریات پوری کرتے اور انعام واکرام وخلعت سے نوازتے ۔اس کے بعد کچہری لگا کر لوگوں کی شکایتیں سنتے اور دادخواہوں کی دادرسی اور حاجت برآری کرتے۔ پھر فوج کے لیے قابل اور محنتی امیدواروں کا انتخاب کرتے۔ اس کے بعد ملکی آمدنی اور  مالیات کے شعبے کا معائنہ کرتے۔اس طرح کے دیگر امور سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز،کھانا اور قیلولہ کرتے۔ قیلولے کے بعد پھر امور سلطنت میں مشغول ہوجاتے۔ یہ نظم الاوقات سفروحضر میں اسی طرح ہوتا تھا۔ کہتے کہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا پورا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔
ایک اسلامی سلطنت کے سربراہ کے لیے اپنے  نظام الاوقات کو صحیح رخ پر بنانے اور پھر اس کی پابندی نہایت ضروری ہے ورنہ قوم کی خدمت اور معاشرے کے اصلاح کے لیے جو سنہرا موقع سربراہ کے پاس ہوتا ہے اس کی ضیاع کا اندیشہ ہوتا ہے اور ایک بار یہ موقع ہاتھ سے جانے کے بعد کبھی بھی دوبارہ اس کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
قیادت کا زمام مغرب کے ہاتھ میں جانے پر کیا نقصان ہوا؟
اسلام نے انسانی معاشرے کو بام عروج تک پہنچایا۔ تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاق وروحانیت نے بھی یکساں فروغ پایا۔ جاہلیت کے ڈسے ہوئے معاشرے کو علم کا تریاق دے کر اسے لذت زیست اور مقصد زیست سے آشنا کیا۔ اخلاق وتربیت کے شجر پر ظلم کی جو کلہاڑی چل رہی تھی، اسلام نے اس شجر کے گرد انصاف کا حصار بناکر محفوظ بنادیا۔ دنیا جو شتر بے مہار کی طرح اندھے گڑھے کی طرف دوڑی جارہی تھی، اسلام نے اسے صحیح رخ دے کر حقیقی منزل تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔
لیکن اچانک ایک خوفناک تبدیلی نے سارا کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ قیادت کی تبدیلی نے پچھلی پالیسی کو کالعدم قرار دے کر من چاہی روش اختیار کی۔ وحی کی روشنی کو چھوڑ کر عقل وخواہش کو راست کا مشعل سمجھ کر اس کی پوجا پاٹ شروع کی گئی۔ قوت اور بڑائی کے نشے میں چور مغربی قیادت نے صحیح وسقم کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کو چلانا شروع کیا۔ نتیجتا بے انصافی، جارحانہ قوم پرستی، غیر محدود شخصی آزادی اور غیر فطری اعمال پروان چڑھنے لگے۔ مغربی معاشرے کو تو خراب ہونا ہی تھا اس سیلاب نے بالعموم پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرقی علوم کو استعمال میں لاکر مادی ترقی تو اپنائی گئی لیکن اس کے ساتھ ہٹ دھرمی، تعصب اور حق سے آنکھیں چرانے کی وجہ سے انہوں نے دنیا کو دہکتی ہوئی آنکھ کا انگارہ بنادیا۔
دین الٰہی کا علمبردار اور دنیا کا محتسب:
رسول اللہ ﷺ نے میدان بدر میں فرمایا تھا:
اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض
[السنن الكبرى للإمام النسائي 9/ 14] ۔۔۔۔ اے اللہ! اگر تو اس جماعت کو ہلاک کردے گا تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے سارے نقائص کے باوجود یہ حقیقت اب بھی اس طرح باقی ہے۔ جاہلیت دنیا کے لیے جو نقشہ رکھتی ہے اور جس نقشہ پر وہ آج دنیا کو چلارہی ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی نقشہ ہے تو صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ اگر چہ مسلمان خود اس کو بھولے ہوئے ہیں لیکن یہ نقشہ ابھی ضائع نہیں ہوا اور نہ کبھی ضائع ہوسکتا ہے۔ مسلمان اپنے دین کی رو سے دنیا کے محتسب اور خدائی فوج دارہیں۔ جسدن وہ بیدار ہوں گے وہ اپنا فرض منصبی انجام دیں گےاور وہ مشرق ومغرب کی قوموں کے لیے روز حساب ہوگا۔ انہیں کی خاکستر میں وہچنگاری دبی ہوئی ہے جو کسی نہ  کسی دن بھڑک کر جاہلیت کے خرمن کو جلا کر خاک کردے گی۔
علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو نظام جاہلی کے علمبردار وصدر نشین ابلیس کی زبان سے ادا کروایا ہے۔ 1936ء کی مجلس شوریٰ میں شیاطین عالم نے جمع ہوکر ان خطرات کو پیش کیا جو ابلیسی نظام کے لیے سخت تشویش اورپریشانی کا باعث ہے اور جن کی طرف جلد متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک مشیر نے جمہوریت کا نام لیا اور اس کو "جہانِ نو کا تازہ فتنہ" بتلایا۔ دوسرے نے اشتراکیت سے سخت خطرہ ظاہر کیا اور ابلیس کو مخاطب کرکے کہا:
فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج                  کانپتے ہیں کوہسار ومرغزار وجوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیروزبر ہونے کو ہے           جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
چنانچہ اپنے چیلے کی پوری بات سننے کے بعد ابلیس نے اس کو مشورہ دیا کہ باقی نظریات تو پانی کے بلبلے ہیں جو ایک دن ختم ہوجائیں گے لیکن اسلام کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو عالم میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔
اسلام کے عروج کا طویل سنہرا دور:
اسلام کی ضیا پاش روشنی کی بدولت دنیا کو حقیقی طورپر نشان منزل نظر آگیا۔ مادی ترقی کو ثانوی حیثیت دے کر روحانی درجات کا حصول اولین مقصدقرار دیا گیا۔ انفرادی نفع کی بجائے اجتماعی مفاد کی خاطر قربانی دینے کی رِیت ڈالی گئی۔ غیر اخلاقی اور عقلی ودینی طور پر نامناسب رسوم ورواجوں کا خاتمہ کیا گیا۔ انسان میں دوسرے انسانوں کا احترام اور ان کی اہمیت کی سوچ دال دی گئی۔ حکومت اور سیاست کا بہترین انداز اپنایا گیا۔ امن وامان کو مادی اور روحانی ترقی کے لیے شیئ اول قرار دے کر اس کو ممکن بنانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان سب قوانین اور اصول کو عملی طور اپنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا نے ایک طویل دور تک اسلام کے سایہ عاطفت میں رہ کر امن اور ترقی کی زندگی گزاری۔
مسلمانوں کے پاس قانون الہی تھا جس کی بدولت وہ آگے بڑھنے میں کوئی ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کو روز روز اپنے قوانین میں ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ حق اور انصاف کے علمبردار  بنائے گئے تھے۔ ان کو اشتعال اور برہمی میں بھی انصاف اور صداقت کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور اور نفس کا انتقام لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔انہیں قرآن کریم نے تاکید کی کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [المائدة: 8]
"اے مومنو! انصاف کے ساتھ گواہی دینے پر آمادہ رہو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہیں چھوڑو۔ عدل کرو، یہی بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو"
مسلمانوں کے حکمران یا خلیفہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ ذامہ داریوں میں غفلت کوکسی بھی صورت گوارا نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس منصب سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ ان کو منصب دیا جاتا تھا لیکن وہ قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں انسانوں کا معاشرتی اور تہذیبی ترقی:
اسلام نے انصاف اور رواداری کو فروغ دیا۔ انسان کو اس کی زندگی کا مقصد بتا دیا۔ معاشرہ کو پستی سے نکال کر ترقی کے راہ پر گامزن کیا۔ غیر اخلاقی افعال واعمال کا قلع قمع کرکے ایک نئے انداز سے معاشرے کو روشناس کرایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير} [الحجرات: 13]
اے لوگو! ہم  نے تمہیں ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔بے شک اللہ کے نزدیک تم  میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا،ہر چیز سے باخبر ہے۔
اسی مضمون کو حضورﷺ نے اپنے زبان مبارک سے بھی بیان فرمایا ہے:
يا أيها الناس أن ربكم واحد و إن أباكم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي و لا لعجمي على عربي و لا لأحمر على أسود و لا أسود على أحمر إلا بالتقوى إن أكرمكم عند الله أتقاكم[شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي 4/ 289]
اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے۔ اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں ہے اورنہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی گورے کوکالے پراور نہ کسی کالے کو گورے پر ، مگر تقوی کے لحاظ سے ۔ بے شک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
یہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کو یکسانیت کا درس دے دیا ہے۔ خواہ مخوا کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت جتانے کا کوئی حق نہیں الا یہ کہ وہ تقوی اور پرہیزگاری کے اعتبار سے سب سے اونچاہو۔
آج دنیا کو اس سچے دین کی سخت ضرورت ہے جو بے چینی کی فضا کو امن وآشتی میں بدل سکتا ہے۔ جو بے یقینی کی جگہ سکون وراحت کی ضمانت دیتا ہے۔ اور بلاشبہہ وہ دین صرف اسلام ہی ہے۔