Friday, March 10, 2017

اقتصادیات کا تعارف

اقتصادیات کا تعارف

نوٹ: قارئین یہ ایک رف تحریر ہے جو دوران لیکچر نوٹ کی گئی۔۔ انشاء اللہ اس کو عنقریب دوبارہ لکھ کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ 

مارشل، آدم سمتھ، پیگو۔۔۔۔۔۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے روح اور جسم کا مجموعہ بنایاہے۔ ۔۔۔ ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا موت پر منتج ہوتا ہے۔۔۔۔روح کی غزا وحی الہٰی ہے۔۔۔یہ غذا اللہ تعالیٰ انسان کو فرشتوں کے ذریعے پہنچاتا ہے۔۔۔۔۔ اور اسی آسمان سے انسان کے لیے رزق بھی مہیا کرتا ہے۔۔۔۔ انسان کی زندگی کا تعلق غذا اور رزق سے بھی ہے۔۔۔۔انسان کی پیدائش کے روز اول ہی سے اللہ  کریم نے اس کے لیے ماں کے جسم میں سے دودھ کے دو چشمے پیداکیے ہیں۔۔۔جس سے یہ اپنی بھوک مٹاتا ہے۔۔وھدیناہ النجدین۔۔۔۔۔سورت فاتحہ کی پہلی آیت اس کی رزاقیت پر دال ہے۔۔۔۔ وہ دوست کو بھی کھلاتا ہے دشمن کو بھی۔۔۔۔انسانوں نے اسی کی عطاء کی ہوئی رزق کو دوسرے انسانوں تک پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔۔۔۔۔انسانی استحصال اور دیگر طریقوں سے رزق کے دروازوں پر لوگ قابض ہوگئے۔۔۔۔۔مغرب میں اسکالرز نے اس کو ایک علم تو بنایا لیکن اس علم کو انسانوں کے استحصال کے لیے استعمال کیا گیا۔۔۔۔ آدم  سمتھ کی کتاب دی ویلتھ آف نیشنز یعنی دولتِ اقوام ہے۔۔۔۔۔کئی عشروں بعد ایک اور گروہ پیدا ہوا جنہوں نے اس کو ایک جدید شکل دے دی۔۔۔۔۔۔انسان کا معاشی مسئلہ تاحال حل نہیں ہوا۔۔۔۔ اسلام نے اس مسئلے کو بہت پہلے حل کیاہے۔۔۔۔ اسلامی معاشیات کی تعریف کی ضرورت:جدید معاشیات کی آج تک کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی جاسکی۔۔۔۔۔اسلامی معاشیات کی جامع و مانع تعریف کی گئی ہے۔۔۔۔جدید معاشیات کے تعارف میں سکول آف تھاٹس وغیرہ میں تفصیل سے موجود ہے۔۔۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جدید معاشیات کی اتنی تعریفیں وضع کی ہیں جن کا احصاء مشکل ہے۔۔۔ البتہ بعض تعریفیں یہ ہیں کہ معاشیات کے علم میں ان سرگرمیوں کا مطالعہ کیا جاتاہے جس میں مختلف افراد کا آپس میں تبادلہ ضرورت کی بناپہ کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ دوسری تعریف: قلیل وسائل کے ذریےضروریات کو پورا کیاجائےا اور اسے انسانوں میں تقسیم کیا جائے۔۔۔۔۔ ایک تعریف یہ ہے کہ معاشیات دولت کا علم ہے کہ لوگ دولت کیسے کماتے ہیں اور کیسے خرچ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ایک اور کہ معاشیات کاعلم خرچ اور سرمایہ کے علم کا ہے۔۔۔۔۔ روبلز کہتے ہیں کہ  معاشیات انسان کےاس طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے کہ وہ ذرائع کو اپنی خواہشات وضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔۔۔۔اگر چہ جدید معاشیات کے ماہرین نے اس تعریف میں بہت ساری خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔۔۔۔
اشتراکی نظام میں معیشت کی تعریف۔۔۔۔ اس نظام کے ماہرین معاشیات کی بیان کردہ تعریف ذرا جامع ہونی چاہئے تھی لیکن یہاں بھی میدان صاف ہے۔۔۔مارکس اور لیلن کی فکر کی تین بڑے اجزا ہیں۔۔۔ فلسفہ۔۔۔ معاشیات۔۔۔معاشیات اور عملی اشتراکیت۔۔۔۔۔۔مارکس انسانی فکر کو اس حوالے سے فوکس کرتا ہے۔۔۔۔ معاشیات کی ارد گرد انسانی سوچ گھومتی ہے۔۔۔۔۔یعنی معاشیات ہی انسانی جدوجہد کی ضرورت اور حاجت ہے۔۔۔۔ مگر اس میں ان ماہرین کا قصور نہیں کیونکہ ان کے ہاں تو بس پیٹ پوجا ہی دنیا میں پہلا اور آخری مقصد ہے۔۔۔ انہیں آخرت اور معاد وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔۔۔ واضح الفاظ میں ان کا فلسفہ فلسفہ شکم ہے۔۔۔ بذریعہ اقتصاد۔۔۔
اسلامی نظریہ معاش: امت مسلمہ کی بیداری کی ایک علامت یہ ہے مسلمانوں نے اپنی اصول کی روشنی میں جدید معاشیات میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔ اسلامی معاشیات ایک جدید موضوع ہے۔۔۔۔ تعریف:

18/11/2015
1۔معاشیات کی تعریف اسلامی نقطہ نظر سے۔اسلامی معیشت کی تاریخ اسلام کی طرح قدیم ہے۔ البتہ اس کے نوک پلک کی درستگی مسلم معیشت دانوں نے بعد میں کی۔ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کے ستائے ہوئے لوگوں کو اگر اسلامی معیشت کی خوبیاں بیان کی جائیں تو ان میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔۔۔۔ اس کی جامع اور مناسب فنی تعریف میں ذرا دیر لگ سکتی ہے۔۔۔۔۔ چند ایک تعریفات:
1۔اسلامی معاشیات اسلامی نظریہ اقتصاد کا نام ہے۔یہ بعض علماء کے نزدیک ہے۔
2۔اسلامی معاشیات ان تمام معاشی اصولوں ک مجموعہ ہے جنہیں ہم قرآن وحدیث سے حاصل کرتے ہیں۔۔
3۔اسلامی معاشیات معاشی سرگرمیوں کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کرتی ہے۔۔۔معاشی پرنسپل کا اسلامی ہونا ہوتا ہے۔۔۔۔
اسلام کے بنیادی قواعد : معاشی سرگرمیوں کی تنظیم کرتےہیں۔ شروط وقیود کو طے کرتی ہے جو اسلامی معاشیات کا خاصہ ہیں۔۔۔۔ ریاستی عمل کا دائرہ کار بھی ریاست کے لیے طے کرتی ہے۔۔۔۔
4۔اسلامی معاشیات ان وسائل کے علم کا نام ہے جنہیں انسان استفادہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔۔۔ جس کا اللہ نے انہیں نگہبان بنایا ہے۔۔۔۔تاکہ اس کے نتیجے  میں معاشرے کے افراد کی ضروریات کی تکمیل ہو۔۔۔۔
حضرت عمر فاروق رض بازار میں باقاعدہ ایک شخص بھیج کر ان لوگوں کو بازار سے اٹھاتے تھے جنہیں خرید وفروخت کے احکامات کا علم نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔لایقعد فی سوقنا من لایعرف الربا۔۔۔۔۔ خلفاء کے دور میں بازار کا محتسب مقرر ہوتا تھا جو تاجروں کی شرعی احکام کی نگرانی کرتا تھا اور ان کی رہنمائی کرتا تھا۔۔۔۔۔
5۔حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں: انسان کھانے پینے اور دیگر فطری تقاضوں میں دیگر حیوانوں کی طرح ہے۔۔۔ بچہ اور بڑا زندگی میں کھانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔۔۔۔ مذہب اور اخلاق اسے انسانیت کے اصول سکھاتے ہیں۔۔۔ اگر انسان معاشی طور پر خراب ہو تو یہ مذھب اور اخلاق کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔اگر وہ معاشی طور پر اچھا ہو تو وہ اخلاق اور انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔۔۔۔ خدائی منشا ہے کہ کوئی آدمی بھی ان چیزوں سے محروم نہ ہوں جن کی ایک متمدن زندگی گزارنے والے کو ضرورت ہو۔۔۔۔اب ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ کن وسائل کو استعمال کرے گااور اس کے کیا اصول ہوں گے۔۔۔۔ یہی اس فن کا موضوع ہے۔۔۔فن المعاملات۔۔۔
اسلام فقط کوئی معاشی نظام نہیں۔۔۔۔بلکہ اسلام ایک دین ہے جس کے احکام ہرشعبہ زندگی سے متعلق ہیں۔۔۔۔۔ اس لیے ترجیحات کا تعین ،وسائل کی تخصیص، منافع کی تقسیم اور ترقی کے وسائل کا اسلام نے کوئی علیحدہ ذکر نہیں کیا ہے۔۔۔۔ البتہ اسلام نے اس حوالے سے ہمیں احکامات دیے ہیں۔۔۔۔ اسلام نے بازار کے قوتوں یعنی رسد اور طلب کے قوانین کو تسلیم کیا ہے۔۔۔۔۔نحن قسمنا بینھم معیشتھم۔۔۔۔۔ دعوالناس یرزق اللہ بعضھم ببعض۔۔۔۔ سرکاری طورپرقیمتیں مقرر نہیں کیے جاتے بلکہ ھو اللہ القابض الباسط۔۔۔۔۔ ذاتی منافع کے محرک کو بھی اسلام نے برقرار رکھا ہے۔۔۔ اسلام نے معاشی سرگرمیوں پر کچھ ایسی پابندیاں مقرر کی ہیں جن کی وجہ سے ذاتی منافع کا محرک غلط ڈگر پر نہیں چل سکتا۔۔۔۔
ماعال من اقتصد۔۔۔۔ الاقتصاد نصف المعیشۃ۔۔۔۔۔
پیدائش دولت۔Production of wealth انتاج الثروۃ۔۔۔۔۔۔
تقسیم دولت Distribution of wealthاس میں یہ بات کہ حاصل شدہ دولت کو لوگوں میں تقسیم کرنا۔۔۔عربی میں توزیع الثروۃ۔۔۔
مبادلہ دولت Exchange of wealthاس کو عربی میں مبادلۃ الثروۃ کہتے ہیں۔۔۔۔یعنی چیزوں کا تبادلہ۔۔۔
صرف دولت Concertino of wealth۔۔۔۔۔کنزرشن۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام  میں ان چار چیزوں کا تذکرہ:
Land زمین۔۔۔ جو براہ راست اللہ تعالی کی تخلیق ہے۔۔۔۔
Labor
سرمایہ ۔۔۔۔۔
آجر۔۔۔وہ شخص یا ادارہ جو عمل پیدائش کا محرک ہوتا ہے۔۔۔۔زمین کو کرایہ دے۔۔۔ سرمایہ کو سود۔۔۔۔ آجر کو نفع۔۔۔۔اور اس کا تعین طلب ورسد کے تحقق پر ہوگا۔۔۔۔۔
اسلام میں معاشیات اخلاقی ضابطوں سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اسلام پوری کائنات کو انسان کے لیے میدان عمل قرار دیتا ہے۔۔۔۔ اسلام گداگری کی مذمت کرتا ہے۔۔۔۔ مثبت طور پر رزق کی تلاش کو مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔۔۔ فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا۔۔۔۔۔الخ۔۔۔۔اسلام نے حلالوحرام کی تمیز کو لازم قرار دیا ہے۔۔۔ رزق حلال کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔۔۔اسلام کی بنیادوں اصولوں میں ترجیح حرمت کو ہے۔۔۔۔۔اسلام میں لین دین کا ایک ضابطہ اخلاق موجود ہے۔۔۔ خوف خدا امانت اور دیانت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔ جوا سٹہ بازی دھوکہ وغیرہ کی سخت ممانعت ہے۔۔۔ تاجر کو خوش خلق اور اعلی کردار کا حامل ہونا چاہئے۔۔۔۔۔اسلام ارتکاز دولت کی ممانعت کرتا ہے۔۔۔۔ گردش دولت کی حوصلہ افزائی اور حکم دیا ہے۔۔۔۔اسلام زمین اور تمام وسائل کو خدائی ملکیت قرار دیا ہے۔۔۔۔۔ یہ ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ ناداروں کو سہولیات بہم پہنچائے۔۔۔۔
انسان نے صر ف دولت میں بڑی خرابیاں پیدا کی ہیں۔۔۔ اگراس کی صحیح تقسیم کی جائے تو معاشرہ خرابیوں سے بچ سکتا ہے۔۔۔۔اسراف اور تبذیر سے اسلام نے منع کیا ہے۔۔۔ ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔۔۔۔۔۔اسراف کامقصد نام ونمود ہوتا ہے۔۔۔۔ دولت کو بے جا خرچ کرنے کی بجائے کارآمد کاموں میں خرچ کیا جائے۔۔۔۔۔

19/11/2015
اسلامی اقتصادیات حصہ سوم، ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ملاکنڈ یونیورسٹی
آج دور جدید میں اہم مسائل اور مالی مشکلات کا ایک جائزہ پیش کیا جائے گا۔۔۔۔یہ مسائل ماہرین معاشیات کے لیے ایک چیلنج ہے۔۔یہ مسائل کیوں پیداہوئے۔۔۔۔ ان مسائل کے حل کیا  مساعی ہورہے ہیں۔۔۔۔اسلامی تعلیمات میں اس کا حل کیا ہے۔۔۔۔۔
کلاسیکی معاشیات مغربی انداز فکر کا نمایاں وصف رہا ہے۔۔۔۔ 1920کے بعد لارڈ کینگرز کے تصورات کا  معاشی دنیا پر بڑا اثر رہا۔۔۔۔مایکرو اکنامکس ان چیزوں کوکہا جاتا ہے جن کا تعلق معاشیات کے ساتھ جزوی ہو۔۔۔۔ اور کلی تعلق کو میکرو اکنامکس کہتے ہیں۔۔۔۔فلکچویشن(اتار چڑھاؤ) افراط کار اور تقسیم دولت وغیرہ چیزیں کلی معیشت یعنی میکرو فنانس میں شامل ہیں۔۔۔۔ تصور قیمت، نظریہ قیمت،صارفین کا رویہ، آمدنی اور خرچ میں توازن ، آجر کی اجرت،یہ مسائل جزوی معاشیات یعنی مائکروفنانس سے متعلق ہیں۔۔۔۔۔وسائل اور اسباب کم ہیں۔۔۔ اس کے  مقابلے میں انسان کی ضروریات زیادہ ہیں۔۔۔ان لامحدود ضروریات کو محدود وسائل میں کیسے پورے کیے جائیں۔۔۔۔۔۔یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔۔۔ یہ ماہرین معاشیات کی توجہ کا مرکز ہے۔۔۔ مسلم ماہرین اس مزعومہ تصور کو قابل التفات نہیں گردانتے اور کہتے ہیں یہ مغربی مفروضات کا شاخسانہ ہے۔۔۔ جبکہ بعض مسلم ماہرین اس مفروضے سے اتفاق کرتے ہیں۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ اس چیز کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور یہ صرف انتظامی عمل ہے۔۔۔ جسے صرف انتظامی طور پر لینا چاہئے اس کے لیے کسی مذہبی اور اخلاقی حجت کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔چونکہ اس کا تعلق پورے نظام معیشت سے ہے اس لیے اسے سمجھنا چاہئے۔۔۔ اس کا تعلق منافع کے تصور سے بھی ہے۔۔۔۔مغربی معاشیات میں اخلاقی پہلو سے بحث نہی ہوتی۔۔۔۔نوکلاسیکی تصور کی رو سے خدمات اور فوائد ومنافع اس میں شامل ہیں۔۔۔۔۔یہ چیزیں مادیت سے ماورا ہیں اور یہ پیداواری سرگرمیاں ہیں۔۔۔۔ ان کے ہاں مذہب دنیاوی امور سے الگ چیز گردانی جاتی ہے۔۔۔ مذھب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔۔۔
اسلامی معاشیات دراصل اخلاقی معاشیات ہیں۔۔۔۔۔ اس میں مذھب کو بڑا عمل دخل ہے۔۔۔ اس میں حقیقی انصاف پربڑا زور دیا گیا ہے۔۔۔ مساوات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔۔۔۔یہ سب مذھبی اقدار ہیں۔۔۔۔ شریعت نے خیرخواہی کی بھی  تعلیم دی ہے۔۔۔ اسلام نے بائع مشتری سب کے لیے خیرخواہی کا حکم دیا ہے۔۔۔۔۔تجارتی رفیق کے لیے بھی اور گاہک کے لیے بھی اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کے لیےخیرخواہی لازمی ہے اسلام میں۔۔۔۔ طیب نفس بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔ معاشی ترقی اور مذھب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے یہ یورپ  کا عقیدہ ہے۔۔۔۔۔غرر کی صورتیں(ڈاکٹر اعجاز)
سوویت یونین کے زوال کے بعد جدید معاشی نظام زوروں پر ہے۔۔۔ اور اس میں سرمایہ دارانہ نظا م کو فروغ حاصل ہے۔۔۔۔ 1980 کے وسط تک ہمارا معاشی طبقہ سوشلزم سے متاثر تھا اور اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے تھے۔۔۔۔شب وروز ان کی زبان پر مغرب کے معاشی نظام کی استحصالیت اور سوشلزم کی افادیت کے مصرعے ہوتے تھے۔۔۔۔۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ طبقہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگیا۔۔۔۔ اور اس کے بعد یہ کیپیٹلزم کا حامی ہوگیا ۔۔۔۔کمیونزم میں مذھب اور اخلاق کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔۔۔ ان کے مذھب افیوم کی طرح ایک نشہ تھا۔۔۔
شیخ محمود احمد(پاکستان) نے سرمایہ کی ضرورت پر بہترین کلام کیا ہے۔۔۔۔۔میکسمائزیشن آف پرافٹ سرمایہ دارانہ نظام میں جائز ہے۔۔۔ اس میں عام آدمی کے مفاد کو نقصان ہوتا ہے۔۔۔۔صارف کا تعلق عموما کمزور طبقہ سے ہوتا ہے۔۔۔ کمزور طبقہ اس نظام میں کچلا جاتا ہے۔۔۔ یہ ظلم عملی طور پر زیادہ ہے جبکہ نظریاتی طور پر وہ کمزوروں کا حامی ہے۔۔۔جس کا کوئی فائدہ ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ عمل ہی اصل ہے۔۔۔۔۔سوشلزم اور کمیونزم دونوں نظاموں طبقاتی تقسیم ہے۔۔۔۔ اس لیے یہ دونوں نظام عام انسانوں کے لیے مفید نہیں۔۔!
WTOورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (World Trade Organization)۔۔ISO انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار سٹینڈرایزیشن(International Organization for Standardization)۔۔۔۔اس کے مقاصد کے بارے میں جانکاری اور پھر اسلام کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔اس ہفتے کا کام۔۔۔۔aims & objectives۔۔۔کم سے کم 5 صفحات۔۔۔۔٭٭
عالم اسلام میں آج جو جنگ جاری ہے یہ ایک علمی اختلاف تھا جو صحابہ کے دور سے آرہاتھا لیکن آج اس سے میدان جنگ بن گیا ہے۔۔۔۔ سنی سٹیٹس اور شیعہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔۔۔۔ ان اختلافات کو ختم کرکے مسلمانوں کو ایک مقصد کے جمع ہونا چاہئے۔۔۔۔٭٭٭
خواندہ وناخواندہ برابر شود۔۔۔ جب تک عربی اور فارسی نظام تعلیم تھا تب تک خواندگی زیادہ تھی۔۔۔ جب انگلش کو سوئچ کیا گیا تو یہ سب علماء ناخواندہ بن گئے۔۔۔۔اگر علماء میتھس اور انگلش کو اپنے نصاب میں شامل کریں تو کیا کچھ  نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ مدارس میں اخلاص ہے لیکن ان مواقع کی پیدائش میں ہم خود رکاوٹ ہیں۔۔۔۔@٭٭٭٭
حقیقی اور غیر حقیقی ضروریات  میں فرق اخلاق کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔۔۔مغرب آج فرضی ضروریات پیدا کرتا ہےاور اس کے لیے وہ ذرائع ابلاغ میں ایڈورٹائنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔ہمارے فقہاء نے جن چیزوں کو کمالیات اور تحسینیات کا نام دیا تھا آج اشتہار بازی کی بدولت وہ ضروریات بن گئے ہیں جن میں تاجر اور صنعت کار کا مفاد ہے۔۔۔جبکہ اسلام کہتا ہے کہ لامحدود مادی ضروریات کو محدود کیا جائے تاکہ زندگی میں سکون ہو اور مساوات برقرار ہوں نیز دولت کے حصول کے دوڑ میں ایک دوسرے کے حقوق پامال نہ ہو۔۔۔۔
وقت وقت کے ساتھ لوگوں کی طرز زندگی میں تبدیلی آتی ہے۔۔۔۔آج لوگ ایک متمدن اور باسہولت زندگی گزاررہے ہیں۔۔۔اگرحلال وحرام کی حدود اور دیگر لوگوں کے حقوق کو پامال نہ کرے اور ان چیزوں کو حاصل کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔
پاکستان دنیا بھر میں کھجور کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے۔۔۔٭٭٭اگر کھجور کے اوپر لگے قدرتی سیل کو نہ ہٹایا جائے تو یہ کھجور سالہا سال تک محفوظ رہتا ہے۔۔۔لیکن اگر اس سیل کو ہٹایا جائے تو پھر اس میں کیڑا پیدا ہوتا ہے۔۔۔٭٭بی بی سی رپورٹ۔۔۔****
اہم ترین اسباب زوالِ معیشت:
1۔       سرمایہ دارانہ معیشت کو اسلامی دنیا میں دل وجان سے قبول کرنا۔یہ اسلامی دنیا میں زوالِ معیشت کا بڑا سبب ہے۔اور اگر اسی طرح اس چیز کو یہاں برقرار رکھا گیا تو ہم غربت کی دلدل میں ڈوبتے جائیں گے۔۔۔۔
2۔       جاگیرداری کا نظام۔۔۔۔۔(اسلام میں جاگیر کا تصور*****)
3۔       ارتکاز دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہونا۔کیونکہ تقسیم دولت اور وسائل کی تقسیم کے نظام میں ناہمواریاں ہیں۔
4۔       ربا اور سودی نظام کا برقرار رہنا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ زبردست تھا لیکن وہ نافذ العمل نہیں ہوا۔
5۔       احیائے موات کے احکام کا نافذ نہ ہونا۔ اگر آج حکومت بنجر زمینوں کی آباد کاری کے قواعد وضوابط وضع کرکے عام لوگوں کو دیں تو ملک میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا۔۔۔
قانونِ وراثت کو مؤثر انداز میں نافذ کیا جائے۔۔۔ نظری طورپر یہ نافذ ہیں لیکن یہ عملی طورپر نہیں ہے۔۔۔اس سے ارتکاز دولت ختم ہوجائے گا۔۔۔زکوٰۃ وعشر کے نظام کو صحیح طریقے سے نافذ کرنا چاہئے۔۔۔۔
شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ چیز ہے۔۔۔۔ کاد الفقر ان یکون کفرا۔۔۔ اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر۔۔۔۔شہروں کی آبادی میں غیر ضروری آباد کاری بھی اخلاقی اور معاشی واجتماعی خرابیاں پیدا کرتی ہے۔۔اور اس کے نتیجے میں فقر بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ وسائل آبادی کی نسبت کم ہوتے ہیں۔۔۔۔٭٭
رابرٹ مارکس نے یہ بات اٹھائی تھی کہ آبادی کو کم کیاجائے تاکہ وسائل پر کنٹرول حاصل ہو۔۔۔۔ یہ نظریہ بہت سے مفروضات پر مشتمل تھا۔۔۔ ماہرین نے ان مفوضات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔۔۔۔ اور کہا کہ ان مفروضات میں ہرایک محل نظر ہے۔۔۔۔ تاریخی اور زمینی حقائق نے بھی اس نطریے کو باطل قرار دیا ۔۔۔۔۔ لیکن مادہ پرست مگرب نے اس نظریے کو قبول کیا۔۔۔۔ کارلمارکس نے بھی اس نظریے کا برا مذاق اڑایا ہے۔۔۔ مولانا مودودی، یوسف قرضاوی اور دیگر محققین نے علمی بنیادوں پر مارکس کے نظریے کو باطل قرار دیا ہے۔۔۔******٭٭٭٭٭رزق کے جو وسائل اب تک استعمال نہیں ہوئے وہ ہزاروں ہیں/۔۔۔۔ ہزار ۔۔۔ ناسوختہ در رگ تاک است (اقبالؒ)
اگر پاکستان وسطی ایشیائی ممالک  کو راہداری کی سہولت فراہم کرے تو اس سے  بڑا معاشی فائدہ حاصل ہوگا۔۔۔انی مکافی بکم الامم یوم القیامۃ۔۔۔۔۔
کسی بھی ملک پر اقتصادی پابندی لگے لیکن  خاندانی منصوبہ بندی کا امداد اس سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔۔۔ لگتا ہے کہ دال میں کالا ہی کالا ہے۔۔۔

26/11/2015
انسان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسے مکان اور ایسی بنیادی فیملی سسٹم مہیا ہو جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزاری کرتے ہوئے ذہنی سکون کو حاصل کر سکے۔خلفاء کے دور میں ناداروں کے لیے وظائف مقررکیے گئے تھے۔ ۔۔۔۔ اسلام کا مزاج بنیادی ضروریات اور حاجاتِ اصلیہ کے بارے میں واضح ہے۔ حاجات اصلیہ اگر ضرورت سے کم ملے تو معاشرے پر اس کے برے اثرات پڑتے ہیں۔۔۔۔ اس سے معاشرے  میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور مایوسی سے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔۔۔ اسلام میں کہیں بھی مایوسی کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔۔ مریض کے لیے اسلام کہتا ہے کہ مایوس نہ ہو۔۔۔ عیادت والا اس کے لیے لاباس طہور انشاء اللہ کے الفاظ کہتا ہے۔۔۔ مالدار کو زکوٰۃ کا حکم ہے دینے کا۔۔۔ فقیر کو مایوس نہیں کیا گیا بلکہ اس سے کہا گیا کہ اگر یہاں کچھ نہ ملا تو وہاں تم مالدار سے بہت پہلے جنت میں جاؤگے۔۔۔۔۔اسلام نے زندگی میں ایک توازن رکھا ہے۔۔ اس توازن کا نام اسلام کا معاشی نظام ہے۔۔۔ بہت سے ایسے عاملات جن کو ہم نے ضروریات میں شامل کیا ہے۔۔آج سے کئی سال پہلے انہیں ضروریات میں سے شمار نہیں کیا جاتا تھا۔۔۔۔مہارتوں کا حصول فرض کفایہ ہے۔۔۔ان تمام مقاصد اور ضروریات کے لیے جن مہارتوں کا حصول ناگزیر ہے ان مہارتوں کا حصول فرض کفایہ ہے۔۔۔
امام غزالی،امام ابن تیمیہ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بھی اس بات کو لکھا ہے کہ مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس چیز پر کسی واجب کے حصول کا دارومدار ہو اس چیز کا حصول بھی واجب ہے۔۔۔ جس دور میں جن چیزوں کا حصول ناگزیر ہو ان کا حصول ضروری ہے۔۔۔۔ ان مہارتوں کے حصول کے لیے معاشی استحکام ضروری ہے۔۔۔ تاکہ درکار اخراجات کو مطلوبہ مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔۔۔ سروسز فراہم کرنے والے لوگ ریاست کے امور چلانے میں معاون ہوتے ہیں۔ بعض پیشے ایسے بھی ہوتے ہیں جو فضول ہوتے ہیں اور جن کا ریاستی اقتصادیات یا ملکی معاشیات کے اضافے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔۔۔۔ جیسے گدی نشین۔۔۔ بادشاہوں کے حاشیہ نشین وغیرہ۔۔۔ یہ لوگ سرکاری خزانے پر بوجھ ہوتے ہیں۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک ایسے لوگ جن کا گزارہ لوگوں کے چندوں پر ہوتا ہے یہ لوگ معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں۔۔۔ لہٰذا بعض پیشے بہت اہم ہوتے ہیں۔۔ بعض کچھ اہم اور بعض بالکل فضول۔۔۔تو وسائل کی تقسیم اہم فالاہم کے اعتبار سے کیاجانا ضروری ہے۔۔۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں آہستہ آہستہ دوسرے  ملکوں کی معیشت پر قبضہ جماتی ہیں۔۔۔۔ ایک چیز جب سرکاری سے پرائیویٹ تحویل میں جاتی ہے تو اس چیز کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔۔۔پرائیویٹائزیشن پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اس کے لیے وہ کمزور ملکوں پر دباؤ بھی ڈالتے ہیں۔۔۔۔(اوراق تجاریہ اور مستقبل  میں خریدوفروخت۔۔۔یعنی فیوچر سیل۔۔۔ استصناع یعنی مینوفکچرنگ۔۔۔اور شیئرز وغیرہ۔۔)مقروض اگر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرے تو اس کے ساتھ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔۔۔۔ سودی نظام میں تو یہ واضح ہے۔۔۔ لیکن اسلام میں اس کا حل ضروری ہے۔۔۔۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کو عدالت میں چیلنج کیا جائے لیکن ہماری عدالتوں کا حال سب کو معلوم ہے۔۔۔۔ چنانچہ یہ ناقابل عمل ہے۔۔۔ اسی طرح بیع بالتقسیط۔۔۔۔ ان کو مشتقات مالیہ کے شعبوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔
مشتقاتمالیہ کے بعض قسمیں شرعا قابل قبول ہیں اور بعض نہیں۔۔۔ ان پر غور کرنے کی ضرور ت ہے۔۔۔ رسک منیجمنٹ کا شرعی طریقہ کار۔۔۔ 

No comments: