Friday, March 10, 2017

اہل علم کی کہانی

وہ علم سے سیر نہیں ہوتے تھے

تحریر : محمد انور محمد قاسم (کویت)
علم اور اہل علم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بے شمار ایسے علماء ملتے ہیں جنہوں نے زندگی کی آخری سانس تک علم کی خدمت اور چاکری کی ، اس وقت بھی وہ پڑھنے پڑھانے اور کتب بینی میں مصروف تھے جب ملک الموت نے ان کی روح قبض کیا ، بلاشبہ اگر ان اولو العزم ہستیوں کے یہ علمی کارنامے نہ ہوتے تو شاید علم دنیا سے رخصت ہوجاتا ، انہوں نے حصول مقصدتک رسائی حاصل کرلی ، یا جان جان آفرین کے سپرد کردی ، گویا وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ
دست از طلب ندارم تا کام من بر آید           یا تن رسد بجاناں یا جان زتن برآید
طلب علم میں فوت ہونے والے
1) امام ابن السنی کے صاحبزادے فرماتے ہیں: ایک روز میرے والد(مشہور محدث امام ابن السنی رحمه الله ) نے لکھتے لکھتے قلم دوات میں رکھ دیا اور دعا کو ہاتھ اٹھائے ، جو ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے پھر وہ قلم نہ اٹھا سکے اور عین حالتِ دعا میں ہی جان جان آفرین کے سپرد کردی ۔
۲)حافظ ابن مندہ  رحمه الله  کا بیان ہے کہ جب ان کے والد دنیا سے رحلت کررہے تھے تو حافظ ساجی ان کے سامنے غرائب شعبہ کی قراءت میں مصروف تھے ، ان کی مقدس روح حدیث کی سماعت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پہنچی ۔سچ ہے
سجدے میں پائے خم ہوں، گردن پہ ہو تلوار
یوں عبادت ہو تو زاہد ہیں‘ عبادت کے مزے اور
2) امام ابو عباس ثعلب رحمه الله  کے عربی ادب میں مقام ومرتبے سے کون نا واقف ہے ،زندگی کے آخری ایام میں بھی شوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ91 سال کی عمر میں مسجد سے خطبہ جمعہ دے کر باہر نکلے ، مسجد سے مکان جانے لگے تو اس تھوڑے سے وقت میں بھی راستے میں کتاب دیکھتے جاتے تھے ، کتاب میں محویت اور اس پر ثقل سماعت ، پھر آواز‘ کیا سنتے ؟ ایک گھوڑا سوار نے دھکّا دے دیا ، زمین پر گرے،بے ہوش ہوگئے اور اسی حال میں آخرت سدھار گئے ۔
 حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر امام موصوف کا کتابوں سے اس قدر لگاؤ نہ ہوتا تو اقلیم علم کی خسروی اور سلطانی انہیں کہاں نصیب ہوتی ، یہی وہ مقدس ہستیاں تھیں جنہوں نے مدرسے کو وطن اورکتابوں کو کفن بنایا
 ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
فقر وفاقہ کے پروردے
عموما ًلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلاف نے علمی دنیا میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے وہ اسی لیے تھے کہ حکومت ِوقت کی سرپرستی انہیں حاصل تھی ، بادشاہ وقت کے دربار سے وظیفے جاری تھے ، کامل اطمینان اور فارغ البالی میں انہوں نے لائق فخر شاندار علمی خدمات انجام دیں ۔ حالانکہ حقیقت بالکل اس کے خلاف ہے ، مشہورمفسرین ، محدثین ، ائمہ دین اور علماءواطباءمیں بہت ہی کم ایسے ہیں جنہیں حکومت وقت کی قدر دانی نصیب ہوئی ہو ، علماء ومحدثین میں امام احمد بن حنبل ؒسے لے کر امام ابن تیمیہؒ تک اکثر وہ شخصیات ہیں جنہوں نے وقت کے حکمرانوں کے عتاب سہے اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید خانوں کی تنگ کوٹھڑیوں میں محبوس ہوکر گذارا ۔
4) یہ شخصیتیں جن عہدوں سے متعلق تھیں اس میں انہیں اپنے معاش کی تدبیریں خود کرنی پڑتی تھیں ، فقر وفاقے کا عالم یہ تھا کہ ابو اسحاق الشیرازی رحمه الله  ( صاحب طبقات شافعیہ ) جیسے محدث وفقیہ زندگی میں حج بھی نہیں کرسکے ،حالانکہ ان کی زندگی میں ہی ان کی شہرت کا آفتاب نصف النہار پر چمک رہا تھا ، تلامذہ کی کثرت کا عالم یہ تھا کہ اگرحج کی خواہش کا ادنی سا بھی اظہار فرماتے تو ان کے شاگرد انہیں اپنی گردنوں پر سوار کرکے حج کراتے ۔ جب کہ آپ کے شاگردوں میں خلافت بنو عباسیہ کے وزیر اعظم اور مدار المہام نظام الملک طوسی جیسے ارباب حکومت اور علماءنواز رو ساء موجود تھے ، لیکن خود داری کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی سے حج کی خواہش کا اظہار تک نہیں کیا ۔
 5) امام ابن طاہر المقدسی رحمه الله  کے متعلق آتا ہے کہ بھوک سے نڈھال ہوکر نان بائی کی دوکان پر چلے جاتے اور روٹی کی خوشبو سے دل کو تسلی دے کر آجاتے ، اس فاقہ مستی میں انہیں کہیں سے ایک درہم مل گیا، اب وہ اس شش وپنج میں پڑگئے کہ اس سے کاغذ اور دوات خریدوں یا روٹی ؟اورجو لباس انہیں اس وقت میسر تھا اس میں کہیں جیب کا نام ونشان نہیں تھا ،آخر غور کرتے کرتے اس درہم کو منہ میں محفوظ کرلیا ، مطالعہ میں اس قدر مستغرق ہوگئے کہ وہ درہم نگل لیا ۔ اس صورت حال پر غور کرتے کرتے یکایک انہیں ہنسی آگئی ، ان کے ایک خوش حال دوست نے ان کی اس صورت حال پر غور کیا کہ اس شخص کا پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا ہے اوربے سبب ہنس رہا ہے ، اس نے شیخ سے ہنسی کا سبب دریافت کیا لیکن شیخ نے اسے حسب عادت ٹال دیا ، اس نے تنگ آکر کہا : ”اگر آپ نے نہیںبتلایا تو میری بیوی پر طلاق ہے “۔آخر شیخ نے مجبورہوکر اپنے فقر وفاقے کی داستان سنائی تو اس شخص کے آنکھوں میں آنسو آگئے ، اس نے گوشت اور روٹی سے شیخ کی تواضع کی ۔ خود فرماتے ہیں: ” جو گوشت اس وقت کھایا اسکی لذت تادم زیست نہیں بھول سکا “۔
6) امام اہل سنت حضرت احمد بن حنبل رحمه الله  کی جلالت شان سے کون ناواقف ہے ؟ آپ کے فقر وفاقہ ، بے کسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ امام صنعانی رحمه الله سے کسبِ فیض کے لیے اپنے ساتھی اور مشہور محدث حضرت یحیی بن معین رحمه الله  کے ساتھ مکہ سے صنعاءکا سفر پیدل طے کیا ،زاد راہ کے لیے اہل قافلہ کے سامان کی حمالی کی ، امام صنعانی کے دولت کدے پر تین دن کے بعد ملاقات کی اجازت ملی ، اس دوران دونوں کے ہاں زاد راہ ختم ہوچکا تھا ، نان بائی کی دوکان پر جاتے اور روٹی کی مہک سے مشام روح کو مہکاتے اور واپس چلے آتے ، آخر جب ضبط نہ ہو سکا تو دو روٹیوں کے عوض اپنے جوتے نان بائی کے پاس گروی رکھ دئیے ۔ ( العلم والعلماء، اخبار العلماء، تذکرة المحدثین )
حالت پریشانی میں علمی کمالات
7) طلب صادق میں یہ کرامت ہے کہ وہ پریشانی کو بھی جمعیت خاطر کے قالب میں لے آتی ہے۔ ابو تمّام طائی خراسان کے دربار کو جارہا تھا، ہمدان میں موسم سرد مہری سے پیش آیا ، برف سے سارے راستے ڈھک گئے ۔ اس پریشان خیالی میں بھی ابو تمّام طائی نے اپنے لیے علمی مشاغل ڈھونڈ لیے ، جس رئیس کا وہ مہمان تھا اس کے کتب خانے میں بکثرت دواوین عرب موجود تھے ، ابو تمّام طائی نے اس موقع کو غنیمت جانا ، سب دیوان پڑھ ڈالے اور ان میں سے اشعار منتخب کرکے عربی نظم کا ایک بے بہا مجموعہ تیار کرلیا ، جو ساری دنیا میں ” دیوان حماسہ “کے نام سے مشہور ہے ۔
8) علم طب کا باوا آدم شیخ الرئیس ابو علی سیناءسے حاکم وقت برہم تھا ، اور اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ بو علی سینا ، نوح بن منصور کا کاتب تھا جو سمر قند کا حاکم تھا ، نوح بن ساسان جو حاکم بخارا تھا ہر روز حاکم سمرقند کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا تھا ، آخر تنگ آکر اس نے اپنے کاتب بو علی سینا کو ان دھمکیوں کاجواب لکھنے کا حکم دیا، ابن سینا نہ صرف فن طب کا ماہر تھا بلکہ انشاءوادب کا بھی یگانہ روزگار تھا ، اس نے جواب میں لمبا چوڑا خط لکھنے کے بجائے صرف قرآن مجید کی یہ آیت لکھ بھیجی :﴾ قَالُوا یَا نُوحُ قَدجَادَلتَنَا فَاکثَرتَ جِدَالَنَا فَاتَنِا بِمَا تَعِدُنَا اِن کُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ﴿ترجمہ ”اے نوح ! تم ہم سے جھگڑتے رہے ہو ، اور بہت زیادہ جھگڑتے رہے ہو ، تو اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتے رہے ہو ‘ اب اسے لے آؤ“۔ ( ھود :32)
اس خط کے پہنچتے ہی نوح بن ساسان سیخ پا ہوگیا اور سمرقند پر یلغار کا حکم دیا ، نوح بن منصور کی افواج پہلی فرصت میں ہی شکست سے دوچار ہوگئی اور وہ گرفتار ہوگیا ، فاتح بادشاہ نے اس خط کے لکھنے والے کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ، اب بو علی سینا کی شامت آگئی تھی ، وہ بےچارہ وہاں سے بھاگااور جان کے خوف سے اس نے اپنے آپ کو رو پوش کررکھا ،اس تباہ حالی میں بھی اسے کچھ دنوں کے لیے ایک عطار (دوا فروش ) کے گھر میں پناہ مل گئی ۔ اس کے ساتھ ہی شیخ کو اپنے علمی مشاغل یا دآگئے، اس نے قلم ودوات اور لکھنے کا سامان منگوایا ، اور اپنی معرکة الآراءکتاب ” الشفاء“کی تکمیل میں جٹ گیا ، جو اس دنیا میں  علوم طب کا مرجع ہے ، اور جو دنیا میں ” القانون فی الطب “کے نام سے معروف ہے ۔ اس کی تکمیل کے ساتھ ہی اس نے کتاب الحیوان اور کتاب النباتات لکھنا شروع کیا ، جب اس سے فراغت پائی تو فن منطق لکھنے لگا ، ابھی فرصت ہی نہیں پایا تھا کہ کسی نے مخبری کردی اور اسے اس عطار کے گھر سے پکڑ کر قلعہ فروجان میں قید کردیا گیا ۔ اگرچہ کہ شیخ کا جسم یقینا محبوس تھا لیکن اس کا دل ودماغ حاکموں کی گرفت سے آزاداور علم کی لا محدود آفاقوں میں گم تھا ۔پھر کیا تھا ‘اس نے اسی قید خانے میں ” کتاب الہدایت “ اور رسالہ ”حیی بن یقظان “ تالیف کی، قید کی تنہائی میں اپنے علم کو رفیق بنالیا اور جیل کی تاریک کوٹھڑی میں علم کے دئے جلا کر اسے بقعہ نوربنادیا ۔
9) امام جمال الدین ابن جوزی رحمة اللہ علیہ کا شمار اسلام کے نامور محدثین ، مفسرین ، واعظین اور مؤلفین میں ہوتا ہے ، آپ نے کم وبیش چار سو کتابیں تالیف فرمائیں، کوئی ایسا فن نہیں چھوڑا جس میں طبع آزمائی نہ کی ہو ، بلکہ ہرفن کے امام تسلیم کئے گئے ، آپ نے حدیث اور علم حدیث لکھنے کے لیے جو قلم استعمال کئے ، ان تراشے ہوئے قلموںکا برادہ الگ سے ایک مقام پر جمع کرتے رہے ، جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے بچوں کو اس بات کی وصیت فرمائی کہ اسی تراشے کے گرم کئے ہوئے پانی سے ان کی میت کو غسل دیا جائے ، چنانچہ اس وصیت پر عمل کیا گیا ، لیکن وہ تراشہ اس قدر زیادہ تھا کہ غسل کے بعد بھی کافی مقدار بچارہا ۔
قید خانے میں علمی فیوض وبرکات
10) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تفسیر وحدیث ، عقائد وفقہ ، فرق باطلہ کی تردید ، احقاق حق اور ابطال باطل، دعوت واصلاح اور حرکت وجہادکے ہر میدان میںتجدیدی کارناموں سے کس کو انکار ہے ؟ شیخ موصوف نے ساتویں صدی ہجری میں آنکھیں کھولیں ، اس وقت تاتاری ایک عذاب بن کر مسلم ممالک پر چھائے ہوئے تھے ، جدھر کا رخ کرتے بکریوں کی طرح مسلمانوں کو ذبح کرتے ، ایسے عالم میں شیخ موصوف کی ذات اﷲ کی نصرت بن کر اٹھی اور آپ نے امت کو شجاعت کا بھولا ہوا سبق پڑھا کر تاتاریوں کے مد مقابل لاکھڑا کیا اور متعدد معرکوں میں انہیں ایسی شکست فاش دی کہ وہ بلاد اسلامیہ کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے ۔ فتح ونصرت کے ان تمام کارناموں کے باوجود حکام وقت کی جانب سے آپ کو قید وتعذیب کے تحفے ملے ، زندگی کا ایک بڑا عرصہ دمشق کے  قید خانے میں گذارا ، جب قید کئے گئے تو تصنیف اور تالیف میں مشغول ہوگئے ، جب لکھنے پڑھنے کا سامان ختم ہوگیا تو قید خانے کے ساتھیوں پر نظر ڈالی ، ان کی اصلاح پر توجہ مبذول کی تو عالم یہ ہوگیا کہ کل تک جو رہزن تھے آج وہ رہرو ہی نہیں بلکہ بہترین رہبر بن گئے ، کل تک جن کی زندگیاں فسق وفجور میں ڈوبی ہوئی تھیں وہ صداقت اور پاکیزگی کے اس بلند اور مقدس مقام پر پہنچ گئے کہ خود صداقت وپاکیزگی کو ان سے انتساب کاشرف حاصل ہوگیا،بڑی سے بڑی علمی درسگاہوں اور روحانی خانقاہوں کو بھی علم وعمل ، تزکیہ وتربیت ، حرکت وجہاد ، کتاب وسنت پر عمل کی وہ برکات حاصل نہیں ہوسکیں جو اس امام وقت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کی وجہ سے دمشق کی کال کوٹھڑیوں کو میسر آگئیں۔ بقول فیض احمد فیض 
متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے ؟
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے ، کیا کہ رکھ دی ہے
ہر اک حلقہ  زنجیر پہ زباں میں نے
داروغہ  زندان کو حکام وقت کا حکم ملا کہ شیخ کو دیگر قیدیوں سے جدا کرکے تنہائی میں ڈال دیا جائے ، حکم کی تعمیل کی گئی ، اب شیخ کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ  کار باقی نہیں رہا کہ ہروقت کتاب اﷲ کی تلاوت سے اپنی مبارک زبان کو تر رکھا جائے ، چنانچہ قرآن حکیم کی تلاوت سے سکون قلب کا سامان بہم پہنچانے لگے ، پتہ نہیں کتنی مرتبہ قرآن مجید کے دور کئے ، جس وقت ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کررہی تھی تو زبان مبارکہ پر ان آیات کی تلاوت جاری تھی :
اِنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَہَرٍ ٭ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُّقتَدِرٍ  ترجمہ :”بے شک پرہیز گار لوگ باغوں اور نہروں میں ہوں گے ، صدق وصفا کی مجلس میں ، قدرت والے بادشاہ کے پاس “۔ ( قمر :54-55)
بھلا جس مقدس ہستی کے مبارک لبوں پر جان کنی کے وقت یہ آیات ہوں پھر اس کا ٹھکانہ قدرت والے بادشاہ کے پاس جنت الفردوس میں صدق وصفا کی مجلس میں نہ ہو تو پھر کہاں ہوگا ۔
یہی وہ یگانہ روزگار ہےں جن کی تعریف کرتے کرتے امام ذہبی جیسے محدث تھک گئے اور فرمانے لگے : ”اﷲ کی قسم اگر میں کعبة اللہ میں مقام ابراہیم کو اپنے داہنے جانب اور حجر اسود کو اپنے بائیں جانب رکھتے ہوئے یہ قسم کھاؤں کہ میں نے ان جیسی عبقری شخصیت نہیں دیکھی اور نہ ہی انہوں نے اپنا مثل اور ہمتا کسی کو پایا ہے ، مجھے یقین ہے کہ میری قسم نہیں ٹوٹے گی “۔       (استفادہ از تذکرہ مولانا آزاد رحمه الله  )

No comments: