Friday, March 10, 2017

ترک ناداں سے ترک دانا تک

ترک ناداں سے ترک دانا تک۔۔۔

مفتی ابو لبابہ شاہ منصور

ترکی سے تعلق ترکی کی بنا پر نہیں، عثمانی ترکی کی بنا پر، ہر مسلمان کے دل میں پایا جاتا ہے۔ ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمارے اکابرِ ہند کے شاندار ماضی میں جہاں اور کئی مثالی کارنامے موجود پائے… جو دنیا میں اور کہیں کم ہی ملتے ہیں… وہیں تحریک خلافت، تحریک ترکِ موالات اور تحریک ریشمی رومال کے عنوان سے ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی حمایت اور اس کے لیے دل وجان، مال وآن قربان کرنے کے جذبات بھی سنے اور پڑھے۔
نہ فقیر ایسی جگہوں پر جا سکا۔ اس میں آپ کو صرف اسی تلاش اور جستجو کے نتائج ملیں گے جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے خلافتِ قبا چاک کرنے کے بعد اس چاک کو رفو کرنے کے لیے ’’دانا ترکوں‘‘ نے انجام دیے یا انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
جب شعور کی آنکھ کھلی تو حضرت والد صاحب دامت برکاتہم کی کتابوں میں ترکانی عثمانی کی تاریخ پر ایک کتاب موجود تھی۔ اسے نجانے کتنی بار پڑھا اور سلطان غازی خان سے لے کر سلطان سلیمان عالی شان، سلطان بایزید یلدرم اور سلطان محمد فاتح جیسی شخصیات کی خدمات اور کارنامے طبیعت میں نقش ہوکر رہ گئے۔ مصطفیٰ کمال کے لیے ’’اتاترک‘‘ کا لقب گھڑنے والوں نے اس ترک ناداں سے جو کام لیے، وہ بھی زندگی کے مختلف ادوار میں پڑھنے کو ملے، حتیٰ کہ ہزاروں ستاروں کے خون اور عظیم قربانیوں سے شبِ تاریک کا پردہ چاک ہوا اور پہلے استاد اربکان پھر طیب اردگان کی شکل میں سحر کے آثار نمودار ہونے کی اطلاع آنے لگی۔ اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟ کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا اس دوران لکھنے لکھانے کا مشغلہ شروع ہوچکا تھا۔ ترک حضرات سے سفر حرمین کے دوران ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اتنے میں کراچی میں ہماری مسجد واقع گلشن اقبال کے قریب ایک ترکی طالب علم ’’اسماعیل کمال اوغلو‘‘ جامعہ احسن العلوم داخلے کے لیے آئے۔ طلبہ نے بتایا کہ ان کو داخلہ تو مل گیا ہے، لیکن رہائش اور کھانے کا نظم نہیں بن سکا۔ احقر نے انہیں اپنی مسجد کے ایک حجرے میں قیام کی سہولت فراہم کی۔ پھر جو ان سے گاڑی چھنی تو کئی سال ہمارے ساتھ گزارے۔ تخصص بھی کیا۔ ہم سب انہیں نام سے پکارنے کے بجائے ’’ترکی بھائی‘‘ کہتے تھے۔ ان کے ذریعے بہت سے حالات معلوم ہوتے رہتے تھے۔ جب ترکی جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ دین دار یا غیر جانب دار ترک پاکستانیوں کو ’’اکاردش‘‘ یعنی پاکستانی بھائی کہتے ہیں۔ اس توافق پر جو مسرت ہوئی وہ ظاہر ہے۔ بات یہ ہے کہ نظریاتی آدمی کو اپنے تعلقات رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نظریات اور متفقہ مقاصد کی بنا پر تشکیل دینے چاہییں۔ اتفاق سے گلشن میں ہمارے پڑوس کی دوسری گلی میں ’’پاک ترک اسکول‘‘ کی قدیم شاخ واقع تھی، جو آج بھی ہے۔ ان کا ہمارے پاس آنا جاناتھا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوگیا کہ یہ ’’نادان ترکوں‘‘ کے وارث ہیں، جبکہ ہمارے درد کی دوا تو ’’دانا ترکوں‘‘ کی جدوجہد میں ہے۔ 
ترکی ایک مرتبہ سے زیادہ جا چکا ہوں، لیکن آج تک ’’آیا صوفیہ‘‘ دیکھنے بھی نہیں گیا، چہ جائیکہ دوسرے مشہور تفریحی مقامات؟ وجہ یہ تھی کہ آیا صوفیہ کو تو سلطان محمد فاتح نے فتح کر لیا تھا۔ ’’بابائے ترک‘‘ مصطفی کمال پاشا نے ’’فری میسن‘‘ کے آزاد اصولوں پر عمل کرتے ہوئے یہاں نماز پر پابندی لگادی۔ اب سلطان فاتح کے ورثہ اسے دوبارہ فتح کرنے کے لیے کس طرح کی نظریاتی محنت، کس انداز سے اور کس خشکی پر جہاز چلا کر کر رہے ہیں؟ یہ دیکھنے کی ضرورت تھی۔ عوامی رش کی جگہوں پر ایسے بھی فقیر کا دل گھبراتا ہے، خصوصاً جہاں غیر ملکی سیاح کھڑے ہوکر ’’اتاترک‘‘ کے اس کارنامے کی داد دیں کہ اس نے آیا صوفیہ میں نماز منع کرکے اسے دوبارہ ’’نمائش گاہ‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے، وہاں تو انسان کا دم گھٹنے لگے گا۔ لہٰذا اس سفر نامے میں آپ کو کہیں ترکی کے تفریحی مقامات، قدرتی مناظر، وغیرہ کا تذکرہ نہیں ملے گا، (باقی نہ فقیر ایسی جگہوں پر جا سکا۔ اس میں آپ کو صرف اسی تلاش اور جستجو کے نتائج ملیں گے جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے خلافتِ قبا چاک کرنے کے بعد اس چاک کو رفو کرنے کے لیے ’’دانا ترکوں‘‘ نے انجام دیے یا انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
اس دوران راقم نے کوشش کی ہے کہ اپنی جستجو اور تفقد کے نتائج بیان کروں، بے جا حمایت یا مبالغہ آمیز تعریف نہ ہمارے بڑوں کا وطیرہ ہے نہ طبیعت کو بھاتی ہے۔ مستقبل میں نجانے کیا ہو؟ کیونکہ تحریکوں پر ہر طرح کا وقت آتا ہے، ان پر شب خون بھی مارا جاتا ہے اور ان کے ’’فضائی اغوا‘‘ کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ پھر چونکہ ’’دانا ترکوں‘‘ کا سفر بہت دھیما، نہایت پھونک پھونک کر ہے۔ اس لیے عام آدمی کو ترکی کی آنکھوں سے نظر آنے والے حالات کے پیچھے چھپے آنکھوں سے نظر نہ آنے والے حالات کا علم نہیں ہو پاتا۔ وہ ترکی میں اسلامی مظاہر کے بجائے مغربی لباس و اطوار کو دیکھ کر ستر سالہ جبر سے گذری قوم کی مجبوریاں نہیں سمجھ پاتا اور وہاں کے تحریکی لوگوں کے متعلق باتوں کو اسلام پسندوں کی بڑک یا مبالغہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے بے جا مبالغہ آمیز حمایت اور معتدل تنقید کے درمیان کا راستہ اپنانے کی کوشش کی ہے۔ 
اصل مقصد یہ ہے کہ ہم آنکھیں کھلی رکھیں، کانوں سے ڈاٹ نکالیں، اور سیکھنے کی کوشش کریں کہ ہم جیسے حالات میں، ہم جیسے لوگ، ہماری دنیا میں کیا کر سکتے ہیں؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والوں پر فرشتے نہیں، شیطان اترتے ہیں۔ ہمیںکوشش کرنی چاہیے کہ فرشتہ نہ بنیں تو شیطان کے خلاف جنگ سے پیچھے بھی نہ رہیں۔ ترک دانا فرشتے نہیں، لیکن انسان بننے کی کوشش ہم سے بہتر انداز میں کر رہے ہیں۔ ان کی کوششوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا! اس غیر روایتی سفر نامے کا حاصل ہے۔ ٭٭٭
مہنگا سودا:
کہتے ہیں شہد جتنا میٹھا، مزیدار اور چاشنی لیے ہوتا ہے اس کو بنانے والی مکھی کا ڈنک اتنا ہی خطرناک ، نقصان دہ اور گہرے زخم کا پیغام لاتا ہے۔ شہد کھانے والا بہت سے امراض سے شفا پاتا ہے اور اس کی مکھی کے ہاتھوں زخم کھانے والا بہت دیر تک تکلیف سہتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ زندگی میں بہت سی باتیں، اکثر عمل اور کئی لوگ شہد سے بھی میٹھے دکھائی دیتے ہیں، مگر وقت آنے پر شہد کی مکھی کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ میرے عزیز عدنان کو ابھی ابھی ایک ایسی ہی مکھی ڈنک مار گئی ہے اوروہ اپنا زخم سہلانے میں مصروف ہیں۔ آج سے 20 سال پہلے عدنان نے’’ شہد‘‘ کی آرزو میں امریکا کا رُخ کیا تھا۔ تب گھر کی حالت یہ تھی کہ ایک وقت کا فاقہ معمول تھا۔ رات کو صبح اور صبح کو رات کی سوکھی روٹیاں کھائی جاتیں۔ بچوں کو ٹیوشنیں پڑھا کر انہوں نے بی اے کیا۔ نہ جانے کتنوں سے قرض لے کر وہ اس دور کے نوجوانوں کے خوابوں کی سرزمین جا پہنچے۔ ابتدائی 3،4 سال انہوں نے ہوٹلوں پر برتن دھوتے ، پبلک واش روم صاف کرتے، ٹیکسی چلاتے گزارے اور اپنی تعلیم کو ماسٹر تک پہنچایا۔ اس کے بعد خوش قسمتی سے انہیں ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور اور پھر جیولری کی دکان پر ملازمت مل گئی اور حالات بدلنے شروع ہوئے۔ بعد میں وہ اپنا کاروبار کرنے لگے۔

کہتے ہیں شہد جتنا میٹھا، مزیدار اور چاشنی لیے ہوتا ہے اس کو بنانے والی مکھی کا ڈنک اتنا ہی خطرناک ، نقصان دہ اور گہرے زخم کا پیغام لاتا ہے۔ شہد کھانے والا بہت سے امراض سے شفا پاتا ہے اور اس کی مکھی کے ہاتھوں زخم کھانے والا بہت دیر تک تکلیف سہتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ زندگی میں بہت سی باتیں، اکثر عمل اور کئی لوگ شہد سے بھی میٹھے دکھائی دیتے ہیں، مگر وقت آنے پر شہد کی مکھی کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
ادھر پاکستان میں اس کے والدین بوسیدہ گھر کو چھوڑ کر بنگلے میں شفٹ ہوئے۔ بچی ہوئی روٹیاں کھانے والا اکثر باہر ریستورانوں میں کھانا کھانے لگے۔ کچھ عرصے بعد والدین نے ان کی شادی کردی، ان کے اوپر تلے دو بیٹے بھی ہوگئے۔ کلینڈر کے ہر پلٹتے صفحے کے ساتھ خوشحالی بڑھ رہی تھی، مگر اچانک ان کی پُرسکون زندگی کے دریا میں اچانک پتھر آگرا۔ عدنان کی والدہ سے ان کی بیوی کی لڑائی ہوئی۔ ان کی والدہ نے انہیں فون کرکے بیوی پر وہ الزام لگائے کہ غصے میں آکر انہوں نے بیوی کو فارغ کردیا۔ بیوی صبر کے علاوہ اور کیا کرتی۔ چھوٹے بیٹے کو اٹھایا اور اپنے گھر چلی آئی۔ عدنان کے گھر والوں نے اسے حوصلہ دیا کہ اس کے بڑے بیٹے کو وہ خود اپنی آنکھوں پر بٹھا کر رکھیں گے۔ عدنان نے صلح کی اپنی سی کوشش کی، مگر مایوس ہوکر اپنی ساری توجہ کا مرکز و محور اپنے بڑے بیٹے عامر کو بنالیا۔ 
لاہور کے سب سے مہنگے اسکول میں اسے داخل کرایا۔ اس کے لیے خصوصی وین لگوائی۔ جب وہ پاکستان ہوتا تو اسے خود چھوڑنے اور لینے جاتا۔ عدنان اس کے کھانے پینے، اوڑھنے پہننے کے لیے ماں باپ کو الگ سے رقم بھیجتا۔ اس نے عامر کو 12 سال کی عمر میں ہی لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور آئی پیڈ کے استعمال میں طاق کردیا۔ عدنان کے بیٹے نے کئی سوشل ویب سائٹس پر اپنی آئی ڈیز بنائیں اور کمپیوٹر کی دنیا میں اس کے کئی دوست بن گئے۔ عدنان نے اپنی جوانی، اپنی محنت اور اپنی دولت اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بنانے میں وار دیں، مگر اب ہوتا یہ کہ عدنان کبھی پاکستان آتا تو عامر ریزرو رہتا اور واپس جانے پر خوش رہنے لگا۔ 
ایک روز وہ اسکائپ پر عامر سے گفتگو کررہا تھا۔ عامر کے مذاق اُڑانے پر عدنان نے اسے سختی سے ڈانٹا تو عامر نے اپنے باپ کو گالی دی۔ روتا ہوا اپنی دادی اماں کے پاس آگیا۔ عدنان نے بعد میں والدہ کو فون کرکے شکوہ کیا کہ میرا گھر خراب کرنے کے بعد اب میرے بیٹے کو بھی مجھ سے جدا کیا جارہا ہے۔ اس کا جواب اسے یوں ملا کہ اب والدین اس کا فون نہیں اُٹھارہے۔ عامر نے یہ کہہ کر اپنے باپ کا اسکائپ اکائونٹ لسٹ سے نکال دیا: ’’میں ایسے آدمی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ عدنان ان دنوں بہت اُداس ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے گھر والوں کی خوشی کے لیے سات سمندر پار اپنی اَنا، اپنی عزت کو ٹھوکر مارنے کا کیا صلہ ملا؟) 
جب بیٹے قد نکالنے لگیں، اپنے باپ کو والد کے درجے سے گراکر ’’آدمی‘‘ بنا ڈالیں تو ایسے میں باپ جیتے جی مرجایا کرتے ہیں۔ یہ اس لکڑی کی طرح ہوجاتے ہیں جو دیکھنے میں مضبوط لگتی ہے، مگر دیمک اس کے اندر کا صفایا کرچکتی ہے۔ ایسی دولت، شہرت اور آسائش کا کیا فائدہ جو سکون، خوشیاں اور اپنوں سے محبت کا ہنر نہ دے سکے۔ ایسی بارش کس کام کی جو باہر کا ہر منظر بھگودے، مگر اندر کی دنیا ویران اور بنجر ہی رکھے۔ ایسے شہد کو کیا چکھنا جس کا میٹھا ذائقہ شہد کی مکھی کے ایک ڈنک سے دُکھ، تکلیف اور افسوس میں بدل جائے۔ عامر جیسا بیٹا رکھنے والے ہر عدنان سے گزارش ہے یہ وقت آنے سے پہلے ہی لوٹ آئیے۔ اپنے بیٹوں سے عدنان جیسے فاصلے گھٹائیے اور اس کے لیے ’’شہد‘‘ کا سودا کرنا پڑے تو کر جائیے کہ یہ کوئی مہنگا نہیں۔
مودی وزیراعظم بن گیا تو۔۔۔۔
’’نریند درامورداس مودی‘‘ بھارتی سیاستدان اور گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ یہ بھارتی ریاست گجرات کے مہسانہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ایک درمیانے طبقے کے خاندان سے تعلق ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں رضاکارانہ طور پر ریلوے اسٹیشنز پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے۔ بے حد سختیاں بھی جھیلیں۔ مودی کے والد ایک ریلوے اسٹیشن پر خوانچہ فروش کا کام کرتے تھے۔ والدہ دفتروں کی صفائی کرتی تھیں۔ نچلے طبقے سے ہونے کی وجہ سے انہیں زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ مودی صرف 10 سال کی عمر میں انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سے منسلک ہوگئے۔ تنظیم سے وفاداری کا حق ازدواجی زندگی سے لاتعلقی کی صورت دیا۔ سیاسی سفر 1984ء میں شروع کیا۔ راشٹریہ سیوک نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا تو مودی بھی ان میں شامل تھے۔ یہ وہ بھارتی سیاستدان ہیں جنہوں نے ایڈوانی کی سومناتھ، ایودھیا یاترا، مرلی منوہر جوشی کی کنّیاکماری اور کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ گجرات کے چار مرتبہ وزیراعلیٰ رہے۔ یہ ایک ہندوانتہا پسند بھارتی سیاستدان کے طور پر مشہورہیں۔ 
گجرات میں ہندو مسلم فسادات کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ تھا۔ 2002ء کے ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ یہ ایک ایسا داغ ہے جو مودی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ ان کی شہرت اور سیاست کا دارومدار بھی مسلم مخالف اقدامات پر ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت مودی کی سیاست کا جزو اوّل ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت میں کروڑوں انتہا پسند ہندو انہیں پسند بھی کرتے ہیں اور ان کی حمایت بھی۔ مودی کی پاکستان مخالف بیان بازی اور رویہ بھی انتہا پسند ہندوئوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہی رویہ ان کی سیاست کے دوام کی اہم وجہ ہے۔ اگر مودی کی سیاست سے مسلمان دُشمنی نکال دی جائے تومودی ایک تیسرے درجے کا سیاستدان بن کر رہ جائے۔ ہاں! مودی اگر گجرات کی معاشی ترقی کو کیش کرانا چاہے تو ہوسکتا ہے وہ ایک بار پھر گجرات کا وزیراعلیٰ بن سکتا ہے، لیکن بھارت کا وزیراعظم ہر گزنہیں۔ 
دنیائے سیاست کے طرز بھی جداگانہ ہیں۔ دنیا کی ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی نعرے پر ووٹ لیتی ہے۔ کوئی ترقی کا نعرہ لگاکر اقتدار میں داخل ہو تا ہے۔ کوئی انصاف کا علم اٹھا کر وزارت عظمیٰ کا سہرا سجالیتا ہے۔ کوئی مذہب کو بنیاد بنا کر خلعت شاہی زیب تن کر لیتا ہے، لیکن دنیا میں ایسے لوگ یا ایسی پارٹیاں بہت کم ہیں جو پہلے کچھ کر دکھائیں، اس کے بعد اقتدار کے بام کو چھوئیں۔ پوری دنیا میں صرف نعروں پر ہی عوام کو قائل کیا جاتا ہے۔ مودی وہ شخص ہے جس نے گجرات کا وزیراعلیٰ رہ کر عوام کو عملاً کچھ کر دکھایا۔ وہ واحد چیز مسلمانوں کا قتل عام ہے، لہٰذا بھارت میں ان دنوں انتہاپسند ہندو نریندرامودی کو اگلا وزیراعظم دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
اب سوال یہ ہے اگر نریندرامودی جیسا انتہا پسند ہندو بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو بھارت میں موجود مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ 
کیا وہ خطہ جو پہلے ہی آتش فشاں بنا ہے مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد کہیں یہ آتش فشاں پھٹ تو نہیں پڑے گا؟
وزارتِ عظمیٰ کے اس معرکے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندرا مودی، حکمران جماعت کانگریس کے راہول گاندھی اور نومولود جماعت عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال مدمقابل ہیں۔ نریندر مودی کو متنازعہ ماضی کے باعث اگرچہ تلخ سوالوں کا سامنا ہے، مگر وہ گجرات کی ڈویلپمنٹ کو بنیاد بنا کر کانگریس کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ کانگریس پر کرپشن کی تنقید بھی جاری ہے۔ نہروگاندھی خاندان پر موروثی سیاست کا الزام بھی۔ چین اور پاکستان مخالف بیان بازی پر بھی نریندرا مودی ووٹ حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ ان کے مقابلے میں راہول گاندھی اس جماعت کی نمایندگی کررہے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی سے سونیا گاندھی اور وزیراعظم من موہن سنگھ کی قیادت میں برسراقتدار رہی۔ راہول گاندھی اکثر اپنی جماعت کی ’’غریبوں کے لیے پالیسیوں‘‘ کی بات کرکے ووٹ ہتھیانے کے خواہشمند ہیں۔ خوراک کے حق کے بل حمایت اور سستی خوراک کے وعدوں سے عوام کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔ 
ان دونوں کے مقابلے میں اروند کیجریوال کی سیاست عام آدمی کی سیاست ہے۔ یہ تین سال پہلے بھارت میں کرپشن کے خلاف باہر نکلے۔ لوگوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انہوں نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت بھی میدان میں اُتار دی۔ بھارتی انتخابات میں اروند کیجروال کو متوسط طبقہ کی حمایت حاصل ہے۔ کیجروال بھارت سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ بدعنوان سیاستدانوں اور افسران کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ عام آدمی کے مسائل کا بیڑا بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ پانی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ بھارت میں انقلاب لانے کے خواہشمندبھی ہیں۔ کیجروال کی عام آدمی سیاست سے بھارت کا ایک بڑا طبقہ ان کا حمایتی بھی ہے۔مودی کی مسلمان دشمنی اور حکومتی جماعت کانگریس کی کرپشن کی وجہ سے غریب طبقہ، بالخصوص مسلمان کیجروال کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض مسلمان رہنمائوںنے مودی کی بجائے کیجریوال اور راہول گاندھی کو ووٹ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، لیکن ان سب کے باوجود بھارت بھر میں عام تاثر یہی ہے بھارت کے نئے وزیراعظم نریندرا مودی ہی ہوں گے۔ 
اب سوال یہ ہے اگر نریندرامودی جیسا انتہا پسند ہندو بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو بھارت میں موجود مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ سیاستدان جو ببانگ دہل پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا ہے، وہ جو چین کو بھارت کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے، اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ اس وقت ملین ڈالر کا سوال ہے، لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ اس بھارت کے لیے بھی بڑا سوال ہے جو خود کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتا ہے۔ اگرخدانخواستہ مودی وزیراعظم بن گیا تو سوال یہ بھی اُٹھتاہے کیا بھارت قومی سیاست کی بجائے قوم پرستی کی سیاست میں داخل ہو جائے گا؟ کیا جمہوریت کے دعویدار بھارت پر قوم پرستی کی چھاپ نہیں لگے گی؟ کیا وہ خطہ جو پہلے ہی آتش فشاں بنا ہے مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد کہیں یہ آتش فشاں پھٹ تو نہیں پڑے گا؟ کیا مودی کے وزیراعظم بنتے ہی بھارت میں ہندومسلم فسادات میں اضافہ نہیں ہوگا؟ کیا انتہا پسند ہندوئوں کو کھلی چھوٹ تو نہیں مل جائے گی؟ کیا حکمران جماعت کانگریس کی موروثی سیاست کا خاتمہ تو نہیں ہو جائے گا؟ 
یہ وہ سوالات ہیں جو بذاتِ خود بھارت کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ (باقی صفحہ5پر) مودی کا وزیراعظم بننا جہاںخطے کے لیے خوفناک ہوگا اس سے کہیں زیادہ بھارت کے لیے خطرناک ہوگا، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے نریندر مودی متنازع شخصیت ہیں۔ ان کی مسلم مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں، تاہم اس کے باوجود نریندرامودی مستقبل کے وزیراعظم کے بڑے اُمیدوار ہیں۔ غیر ملکی سروے کے مطابق بھارت کے 43 فیصد لوگ نریندر مودی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ کانگریس کے حمایتیوں کی شرح صرف 22 فیصد اور کیجریوال کے مداحوں کی شرح صرف 18 فیصد ہے۔ مودی کی شہرت اور ممکنہ وزیراعظم کے امکانات کے پیچھے چند مزید وجوہات بھی ہیں۔ مثلاًحکمران جماعت نے پچھلے 5 سال میں عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ عوام من موہن سنگھ کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ درمیانے طبقہ آگ بگولہ ہے۔ نچلی سطح پر غربت اور افلاس نے کانگریس کے حمایتیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ 
دوسری طرف کیجریوال اتنے پائے کا لیڈر نہیں کہ وہ مودی کا جم کر مقابلہ کرسکے۔ بھارت میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ کیجریوال کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کر لینے کے بعد ہندوئوں کے ووٹ سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے امکانات بھی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سیاسی اکھاڑے میں ابھی نومولود ہے۔ صرف 3 سال کی تاریخ سے وزارت کے منصب تک رسائی یقینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کیجریوال عام آدمی ہے۔ اس کے پیٹھ پر کوئی بڑا گروپ، کوئی بڑی کمپنی یا کوئی بڑا آدمی نہیں جو کیجریوال کو راہول گاندھی اور مودی کے مقابل کھڑا کرسکے۔ اس کے مقابلے میں نریندرا مودی کی الیکشن مہم میں بھارت کے بڑے گروپ جیسے ٹاٹا گروپ، متل گروپ اور ریلائنس گروپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ یہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے رہے، لہٰذا یہ وہ وجوہات ہیںجن کو بنیاد بنا کر تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے بھارت کا اگلا وزیراعظم نریندر ا مودی ہی ہوگا۔ 
اب سوال یہ بھی ہے کیا نریندرامودی وزیراعظم بن کر اپنے وعدوں کا پاس کرسکے گا؟ کیا وہ معاشی ترقی کے نعروں کو عملی شکل دے پائے گا؟ کیا وہ مسلم اور پاکستان مخالف بیان بازی کی تصویر کشی کر سکے گا؟ کیا مودی بطور وزیراعظم پاکستان اور چین سے دشمنی مول لے سکے گا؟ یہ انتہا پسند مودی کی انتہا پسند سوچ تو ہوسکتی ہے۔ یہ مودی کی سیاست اور ووٹ بینک بنانے کا حربہ تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایسا عملاًکچھ نہیں کر پائے گا۔ اس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے۔ اگرمودی مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر اُتر آیا تو سب سے پہلے بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان غلام بن کر ہندوئوں کا ظلم برداشت نہیں کریں گے اور بھارتی ادارے وزیراعظم کو ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ 
دوسرا، بھارت اور پاکستان کے تعلقات خطے بالخصوص دونوں ممالک کی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر مودی پاکستان مخالفت کو ہوا دے گا تو وہ معاشی ترقی کے دعوئوں کو عملی شکل نہیں دے پائے گا۔ چین کے ساتھ خراب تعلقات بھی بھارت کے لیے سود مند نہیں، کیونکہ یہ طے ہے بھارت کبھی بھی چین کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ مودی کو وزیراعظم ہوتے ہوئے قوم کو لیڈ کرنا ہوگا۔ اسے ملک کو آگے بھی بڑھانا ہوگا۔ اسے پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی بہتر بنانا ہوں گے اور اگر خدانخواستہ مودی ایسا نہ کر پایا، اس نے انتخابی نعروں کو عملی شکل دینا شروع کر دی تو یہ چھ ماہ سے زیادہ وزیراعظم نہیں رہ سکے گا، کیونکہ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مودی کو چلنے نہیں دیں گے۔
v سیاست کا ایک یہ اصول بھی طے ہے۔ سیاست جذبات سے نہیں شعور و ادراک کا نام ہے۔ اقتدار کو بچانے، ملک کو خوشحال بنانے اورخود کو قومی حکمران ثابت کرنے کے لیے دشمن کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ یہ طے ہے بڑا سیاستدان اور بڑا لیڈر بننے کے لیے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کی سوچ درکار ہوتی ہے جو گوروں کو سینے سے لگاکر امر ہوجاتا ہے۔ اگر مودی مسلمانوں کا قتل عام کر کے قومی حکمران بننا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔ 
مودی کا وزیراعظم بننا جہاںخطے کے لیے خوفناک ہوگا اس سے کہیں زیادہ بھارت کے لیے خطرناک ہوگا، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے نریندر مودی متنازع شخصیت ہیں۔ ان کی مسلم مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں، تاہم اس کے باوجود نریندرامودی مستقبل کے وزیراعظم کے بڑے اُمیدوار ہیں۔ غیر ملکی سروے کے مطابق بھارت کے 43 فیصد لوگ نریندر مودی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ کانگریس کے حمایتیوں کی شرح صرف 22 فیصد اور کیجریوال کے مداحوں کی شرح صرف 18 فیصد ہے۔ مودی کی شہرت اور ممکنہ وزیراعظم کے امکانات کے پیچھے چند مزید وجوہات بھی ہیں۔ مثلاًحکمران جماعت نے پچھلے 5 سال میں عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ عوام من موہن سنگھ کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ درمیانے طبقہ آگ بگولہ ہے۔ نچلی سطح پر غربت اور افلاس نے کانگریس کے حمایتیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ 
دوسری طرف کیجریوال اتنے پائے کا لیڈر نہیں کہ وہ مودی کا جم کر مقابلہ کرسکے۔ بھارت میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ کیجریوال کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کر لینے کے بعد ہندوئوں کے ووٹ سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے امکانات بھی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سیاسی اکھاڑے میں ابھی نومولود ہے۔ صرف 3 سال کی تاریخ سے وزارت کے منصب تک رسائی یقینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کیجریوال عام آدمی ہے۔ اس کے پیٹھ پر کوئی بڑا گروپ، کوئی بڑی کمپنی یا کوئی بڑا آدمی نہیں جو کیجریوال کو راہول گاندھی اور مودی کے مقابل کھڑا کرسکے۔ اس کے مقابلے میں نریندرا مودی کی الیکشن مہم میں بھارت کے بڑے گروپ جیسے ٹاٹا گروپ، متل گروپ اور ریلائنس گروپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ یہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے رہے، لہٰذا یہ وہ وجوہات ہیںجن کو بنیاد بنا کر تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے بھارت کا اگلا وزیراعظم نریندر ا مودی ہی ہوگا۔ 
اب سوال یہ بھی ہے کیا نریندرامودی وزیراعظم بن کر اپنے وعدوں کا پاس کرسکے گا؟ کیا وہ معاشی ترقی کے نعروں کو عملی شکل دے پائے گا؟ کیا وہ مسلم اور پاکستان مخالف بیان بازی کی تصویر کشی کر سکے گا؟ کیا مودی بطور وزیراعظم پاکستان اور چین سے دشمنی مول لے سکے گا؟ یہ انتہا پسند مودی کی انتہا پسند سوچ تو ہوسکتی ہے۔ یہ مودی کی سیاست اور ووٹ بینک بنانے کا حربہ تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایسا عملاًکچھ نہیں کر پائے گا۔ اس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے۔ اگرمودی مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر اُتر آیا تو سب سے پہلے بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان غلام بن کر ہندوئوں کا ظلم برداشت نہیں کریں گے اور بھارتی ادارے وزیراعظم کو ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ 
دوسرا، بھارت اور پاکستان کے تعلقات خطے بالخصوص دونوں ممالک کی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر مودی پاکستان مخالفت کو ہوا دے گا تو وہ معاشی ترقی کے دعوئوں کو عملی شکل نہیں دے پائے گا۔ چین کے ساتھ خراب تعلقات بھی بھارت کے لیے سود مند نہیں، کیونکہ یہ طے ہے بھارت کبھی بھی چین کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ مودی کو وزیراعظم ہوتے ہوئے قوم کو لیڈ کرنا ہوگا۔ اسے ملک کو آگے بھی بڑھانا ہوگا۔ اسے پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی بہتر بنانا ہوں گے اور اگر خدانخواستہ مودی ایسا نہ کر پایا، اس نے انتخابی نعروں کو عملی شکل دینا شروع کر دی تو یہ چھ ماہ سے زیادہ وزیراعظم نہیں رہ سکے گا، کیونکہ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مودی کو چلنے نہیں دیں گے۔ 
سیاست کا ایک یہ اصول بھی طے ہے۔ سیاست جذبات سے نہیں شعور و ادراک کا نام ہے۔ اقتدار کو بچانے، ملک کو خوشحال بنانے اورخود کو قومی حکمران ثابت کرنے کے لیے دشمن کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ یہ طے ہے بڑا سیاستدان اور بڑا لیڈر بننے کے لیے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کی سوچ درکار ہوتی ہے جو گوروں کو سینے سے لگاکر امر ہوجاتا ہے۔ اگر مودی مسلمانوں کا قتل عام کر کے قومی حکمران بننا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔
طوائف سے کوئے ملامت:
ہم عصر کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اس گلی کی طرف نکل گئے، جہاں ہمارے دوست مسٹر کلین کا دولت خانہ آباد ہے۔ مسٹر کلین کا گھر دکھائی دیا تو بے ساختہ غالب کا یہ شعر زباں پر آگیا ؎ دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کد ہ ویراں کیے ہوئے مگر ہمارا ارادہ صرف ’’طواف کوئے ملامت‘‘ کا ہی تھا۔ مسٹر کلین سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کا خود ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے ان کے محلے کی مسجد میں ادا کی۔ مسجد میں ہمیں ایک نوجوان ملے جو ہمیں کسی حوالے سے جانتے تھے۔ انہوں نے نماز کے بعد شربت وغیرہ پلانے کے لیے بہت اصرار کیا۔ ہمیں ان کی محبت کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ہم ابھی قریبی جوس کی دوکان میں بیٹھے کیلے کے جوس کی تیاری کا انتظار کر رہے تھے کہ ہمارے دوست مسٹر کلین بھی دوکان کے سامنے سے گزرتے دکھائی دیے۔ ہماری خوش قسمتی تھی ان کی نظر کرم ہم پر پڑگئی۔ وہ مڑ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ 
موصوف بڑے خوش گوار موڈ میں تھے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے: ’’ملاجی! آپ نے خواہ مخواہ ہمارے ڈرا ڈرا کر دُبلا کردیا تھا کہ افغانستان میں طالبان نے جنگ جیت لی ہے اور امریکا شکست کھاکر دُم دباکر بھاگ رہا ہے۔ امریکا نے تو وہاں کامیاب الیکشن کروالیا ہے، اب اس کا قبضہ پکا ہوگیا ہے۔ طالبان نے انتخابات ناکام بنانے کی بہت دھمکیاں دی تھیں۔ دیکھا آپ نے وہ دھمکیاں کس طرح گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئیں۔ اب تو آپ ملا لوگوں کی خوش فہمیاں دور ہوجانی چاہییں!‘‘ مسٹر کلین کی اس گفتگو کے دوران جوس کے گلاس آگئے تھے۔ ہم نے اخلاقاً اپنا گلاس ان کے آگے کردیا جو انہوں نے بلا تکلف قبول کرلیا اور نلکی کے ذریعے لمبی لمبی چسکیاں لینے لگے۔
طالبان نے حکمت عملی کے تحت الیکشن میں خلل نہیں ڈالا تاکہ امریکا کو افغانستان میں مزید قیام کا جواز نہ مل سکے۔
ہمارے میزبان نوجوان نے جو غالباً مسٹر کلین کی عادتوں سے واقف تھے۔ ایک خشمگین نگاہ سے مسٹر موصوف کی طرف دیکھا۔ ایک اور گلاس کا آرڈر دیتے ہوئے اپنا گلاس ہماری طرف بڑھادیا۔ خیر! تو ہم نے مسٹر کلین کی بات کے جواب میں گزارش کی کہ ہمیں خوش فہمیاں دور کرنے کا آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر، لیکن افغان صدارتی انتخابات سے متعلق مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں پڑ ھ کر آپ کو جو خوش فہمی لاحق ہوچکی ہے، اس کا ازالہ کون کرے گا؟‘‘ 
مسٹر کلین نے جوس کی آخری ’’گڑگڑاہٹ والی‘‘ چسکی لے کر سوال کردیا: ’’میری خوش فہمی؟ میں تو فیکٹس کی بنیاد پر بات کررہا ہوں۔ کیا افغانستان میں صدارتی انتخاب کامیاب نہیں ہوا؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! انتخابات کی کامیابی کے تین پیمانے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ آزادانہ ہوں، دوسرے یہ کہ پورے ملک میں لوگ جوق در جوق انتخابات میں حصہ لیں اور پھر یہ کہ الیکشن کے دوران امن قائم رہے۔ 
جہاں تک افغان صدارتی انتخابات کے ’’آزادانہ‘‘ ہونے کا سوال ہے تو اس کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ یہ انتخابات قابض فوج کی نگرانی میں اور عالمی طاقتوں کی چھتری تلے ہورہے ہیں۔ انتخابات میںعوام کی شرکت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو افغانستا ن اگر صرف شمال کے چند علاقوں اور کابل کے مخصوص آبادی والے حصے کا نام ہے تو آپ کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ وہاں کچھ انتخابی گہماگہی دیکھنے میں آئی ہے، مگر جہاں تک جنوبی افغانستان کا تعلق ہے جہاں ملک کی 90 فیصد آبادی رہتی ہے، وہاں عالمی میڈیا بھی بسیار کوشش کے باوجود گہماگہمی اور ووٹروں کی قطاریں نہ دکھاسکا۔ خود افغان کٹھ پتلی الیکشن کے مطابق سیکڑوں کی تعداد میں انتخابی مراکز ایسے تھے جہاں سرے سے کوئی ووٹ ہی نہیں ڈالا گیا۔ اور جہاں تک امن و امان کا سوال ہے تویہ بات درست ہے کہ جہاں بھی الیکشن ہوا مجموعی طور پُر امن وامان کے ماحول میں ہوا… 
مسٹر کلین نے یہاں ہماری بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’جی! اب اس بارے میں آپ کی تاویل کیا ہے؟ سنا ہے مولویوں کے ہاں تاویل کا باب ’’باب خیبر‘‘ سے بھی بڑا ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! تاویل کی بات نہیں ہے، آپ کو یاد ہوگا، الیکشن سے پہلے ایک ماہ کے دوران کابل کے انتہائی سیکورٹی علاقے میں طالبان نے غیرملکی اہداف پر چار خونی حملے کیے جن میں درجنوں صلیبی مارے گئے۔ اب اگر وہ کابل کے ریڈ زون میں اتنی بڑی کارروئیاں کر سکتے ہیں تو ان کے لیے دیگر علاقوں میں کارروائیاں کرنا کون سا مشکل کام تھا؟ بات یہ ہے کہ طالبان نے اس لیے انتخابی عمل کو نشانہ نہیں بنایا کہ اس سے عام لوگوں کو نقصان ہونا تھا، طالبان عام لوگوں کو کبھی نشانہ نہیں بناتے۔ 
دوسری بات بعض مبصرین نے یہ کی ہے کہ طالبان نے حکمت عملی کے تحت الیکشن میں خلل نہیں ڈالا تاکہ امریکا کو افغانستان میں مزید قیام کا جواز نہ مل سکے۔ ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ مسٹر کلین ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی نشست سے اٹھے اورکہا: ’’ اوہ،سوری ملا جی! میرے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے، مجھے تو بیگم نے دودھ اوربسکٹ لانے بھیجا تھا!‘‘
امریکی چھتری کے سائے میں:
منگل 11 ستمبر 2001ء کو امریکا کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 48 منٹ ہوئے تھے۔ پاکستان میں لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوچکے تھے۔ ہر شخص اپنی اپنی دھن میں مگن تھا۔ نیویار ک میں ایک مسافر طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے جاٹکرایا۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ 9 بج کر 3 منٹ پر ایک اور طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور میں گھس گیا۔ 110 منزلہ کوہِ پیکر عمارت دیکھتے ہی دیکھتے ملبے کاڈھیر بن گئی۔ اس حادثے کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈال کر امریکانے 7؍ اکتوبر 2001ء کو رات کے 9 بج کر 40 منٹ پر افغانستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کردیا۔ صدر بش نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’یہ مہم دہشت گردی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ اس جنگ میں امریکا تھکے گا نہ ناکام ہوگا اور نہ ہی کوئی غلطی کی جائے گی۔‘‘ جنگ کے نتیجے میں افغانستان سے پاکستان دوست اسلام پسند طالبان کی حکومت ختم ہوئی۔ امریکا نے جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے ان سابق سیاست دانوں کو مدعو کیا جو افغانستان کے المیوںسے لاتعلق کب سے گوشہ عافیت میں چھپے ہوئے تھے۔ 
اس کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق 22 دسمبر 2001ء کو حامد کرزئی کی قیادت میں ایک عبوری حکومت نے 6 ماہ کے لیے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا، مگر یہ 6 ماہ تین سال طویل ہوگئے۔ افغانستان جنگ کی آگ میں جلتارہا۔ 2004ء کے اواخر میں صدارتی انتخابات ہوئے۔ حامد کرزئی کو امریکا کی پوری سرپرستی حاصل تھی، اس لیے مخالف دَھڑوں کے افراد آسانی سے خرید لیے گئے۔ یوں 7 دسمبر 2004ء کو حامد کرزئی نے 5 سال کی مدت کے لیے افغانستان کے منتخب صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا۔ ایک افغان شاعر غلام رسول خوش بخت نے صدارتی الیکشن کی ’’شفافیت‘‘ پر ایک طنزیہ نظم لکھی تواسے القاعدہ کا وفادار قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا۔ صدارتی الیکشن کے بعد پارلیمانی انتخابات کی تیاری اور ’’مناسب وقت‘‘ کے انتظارمیں ایک سال اور گزرگیا۔ 18 ستمبر 2005ء کو افغانستان میں پارلیمانی الیکشن ہوئے۔ نتائج سامنے آنے کا عمل 7؍ اکتوبر کو مکمل ہوا۔ امریکا اس الیکشن کے نتائج پر بھی پوری طرح اَثرانداز رہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا صدارتی قلم دان اور پارلیمنٹ ایک ہی دھڑے کے ہاتھ میں ہو، اس لیے پختونوں کی جگہ شمالی اتحاد کو آگے بڑھایا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا، بلکہ نکالا گیا کہ قومی اسمبلی میں شمالی اتحاد کے غیرپختونوں کو برتری حاصل رہی۔ 2004ء اور 2005ء کے صدارتی اورپارلیمانی الیکشن سخت خطرے کی زد میں ہوئے تھے، کیونکہ طالبان کے حملوں کا اندیشہ تھا۔ کئی جگہ طالبان نے پولنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بھی بنایا تھا، مگر جلد ہی طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی، کیونکہ اس طرح مخالفین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل رہا تھا کہ طالبان اپنی نامقبولیت کو چھپانے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ طالبان جان گئے تھے البتہ پولنگ روکنے کے لیے کیے گئے حملوں سے اُلٹا خود حملہ آوروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
23 نومبر پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری ہوگئے جن کے مطابق افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو 249 میں سے صرف 100 نشستیں مل سکیں۔ ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں جیت گئیں۔ 5 سال مزید گزرگئے۔ افغانستان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ جنگ جاری رہی۔ بدامنی، کرپشن، افلا س اور لاقانونیت کا بازارگرم رہا۔
اگست 2009ء میں پھر صدراتی انتخابات ہوئے۔ طالبان نے اس بار انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، بلکہ افغان حکومت کی جانب سے انتخابات کے دوران عارضی جنگ بندی کی پیش کش کا انہوں نے مثبت جواب دیا۔ کرزرئی نے ایک بار پھر دَنگل جیت لیا۔ 18 ستمبر2010ء کو پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ طالبان نے اس بار بھی الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ پھربھی عوام کی بہت کم تعدادنے انتخابات میں حصہ لیا۔ خصوصاً پشتون علاقوںمیںٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ غیرمعمولی دھاندلی اور پشتونوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ازبک، تاجک اور ہزارہ الیکشن میں چھائے رہے۔ بعد میں بہت سے حکومتی ارکان، سرکاری افسران اور غیرملکی مبصرین نے دھاندلی کا اعتراف بھی کیا۔ دھاندلی کے خلاف کابل میں مظاہرہ بھی ہوا، مگر جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔ 
23 نومبر پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری ہوگئے جن کے مطابق افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو 249 میں سے صرف 100 نشستیں مل سکیں۔ ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں جیت گئیں۔ 5 سال مزید گزرگئے۔ افغانستان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ جنگ جاری رہی۔ بدامنی، کرپشن، افلا س اور لاقانونیت کا بازارگرم رہا۔ اب افغانستان میں امریکی چھتری کے سائے تلے تیسری بار صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ طالبان نے اس بار بھی کسی کو نہیں چھیڑا۔ اپنی سابقہ پالیسی پر قائم رہے۔ شاید یہ تحریر شایع ہونے تک نتائج بھی آچکے ہوں۔ بعض کالم نگاروں نے اس پر خوب بغلیں بجائی ہیں کہ شاید طالبان اب انتخابی عمل میں آڑے آنے کے قابل نہیں رہے جو ان کی کمزوری اور اتحادی افواج کی برتری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ شاید اب افغانستان میں ایک سنہرا دور شروع ہونے کو ہے۔ ان حضرات کو اپنے حافظے کی کمزوری کا علاج کرانا چاہیے۔ یہ نہ ہوسکے تو کسی لائبریری میں جاکر 2009ء اور 2010ء کے انتخابات کے حالات کو ازسرِنو پڑھ لیں۔ طالبان کی پالیسی تو اسی وقت سے یہ ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے نہ آڑے آئیں گے۔ 
رہی یہ بات طالبان جمہوری نظام میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ اس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں، مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے اگر افغانستان کا کوئی ہمدرد پورے خلوص سے اس ماحول میں انتخابی دنگل میں اُتر بھی جائے تو کون سا تیر مارلے گا؟ کرزئی افغانوں کے نہ سہی پشتونوں کے با پ مشہور ہیں، مگر انہوں نے اپنی قوم کے لیے کیا کرلیا؟ ایک دو بار نہیں متعدد مرتبہ انہوںنے باقاعدہ آنسو بہاتے ہوئے افغانوں کی کسمپرسی اور اپنی بے بسی پر اظہارِ افسوس کیا ہے، مگر اس سے کیا حاصل؟ اگر آنسو بہانے سے کچھ ہوتا تو سرزمینِ افغان کے مصائب و آلام پر اُمت کے اتنے آنسو بہ چکے ہیں کہ انہیں جمع کیا جائے تو کرب و بلا کا ایک سمند رموجزن ہوجائے۔ 
طالبان اسی لیے اس نام نہاد جمہوری ڈرامے میں حصہ نہیں لے رہے کہ وہ بے بسی اور پشیمانی کے آنسو نہیں بہانا چاہتے۔ وہ غاصب امریکی و اتحادی افواج کو وہی سبق دے کر اپنی دھرتی سے بھگانا چاہتے ہیں جو ان کے بڑوںنے برطانوی اور روسی افواج دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی قوت کے سامنے نہ آہوں کے بند باندھے جاسکتے ہیں نہ گریہ وزاری سے اسے نرمایا جاسکتا ہے۔
افغانستان کا مستقبل:
11ستمبر 2001ء کو دنیا کا منظر نامہ بدلا۔ امریکا اور اتحادیوں نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کردیا۔ طالبان کی حکومت کابل سے ختم ہوگئی۔ کرزئی مسکرائٹیں بکھیرتا افغانستان کی دھرتی پر آن اترا۔ انٹرنیشنل کانفرنس آن افغانستان دسمبر2001ء کو جرمنی کے شہربون میں ہوئی۔ وہاں کرزئی کو 6 ماہ کے لیے افغانوں کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔ یوں 22 دسمبر 2001ء کو کرزئی کابل کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ جون 2002ء میں اسے لویہ جرگہ نے افغانستان کا صدر چن لیا۔ اکتوبر 2004ء میں صدارتی انتخابات ہوئے۔ امریکیوں نے اسے آشیرباد دی۔ وہ 34 میں سے 21 صوبوں میں برتری کے ساتھ سامنے آگیا۔ اس نے اپنے 22 حریفوں کو شکست دے دی۔ 54.4 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
یوں اسے 8.1 ملین ووٹوں میں 4.3 ملین ووٹ ملے۔ دسمبر2004ء کو اس نے حلف اٹھایا۔ اس تقریب میں 3 سابق امریکی صدر اور اس وقت کا نائب امریکی صدر ڈک چینی بھی شامل تھا۔ ظاہر شاہ کو خصوصاً اس تقریب کے لیے لایا گیا۔ کرزئی کا عہد افغانستان کے لیے کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری کا دور لایا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت شاہی محل یا بیرون ملک دورں میں گزارتا تھا۔ اس کی حکومت کے کابل سے باہر پر جلتے تھے۔ 2006ء میں اس کی بدعنوانی کے خلاف تحریک چلی۔ 7 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے۔ کرزئی اس کے 6 بھائیوں اور بہنوئی نے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ افغانستان میں دوبارہ پوست کاشت ہونے لگی۔ کرزئی نے منشیات فروشی کو بزنس کا درجہ دے دیا۔ اس کے خاندان نے اتنا مال بنایا کہ شکاگو اوردوسرے بڑے امریکی شہروں میں ہوٹلوں کی ایک پوری چین بنالی۔ کرزئی سی آئی اے، ایران اور دوسرے ملکوں سے آنے والی رقم کا تنہا وارث بن گیا۔ وہ جس بھی ملک کا دورہ کرتا وہاں دست طمع دراز کرنا نہ بھولتا تھا۔
یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے کہ ہم افغانستان کے نئے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ پاک افغان تعلقات کا جائزہ لیں اور نئے دور کا آغاز کریں۔
یوں افغانستان مفلوک الحال اور کرزئی زبردست خوشحال ہوتا چلا گیا۔ طالبان جو وقتی طور پر پسپا ہو گئے تھے انہوں نے کئی صوبوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا اور کرزئی حکومت کے پر کاٹ دیے۔ کرزئی کا دائرہ اختیار کابل شہر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسے’’ کابل کے میئر‘‘ کاخطاب دلنواز عطا کردیا۔ امریکی اور نیٹوافواج کو طالبان کے خلاف سخت مزاحمت پیش آنے لگی۔ وہ کرزئی کی بداعمالیوں سے چشم پوشی کرکے اسے افغان حکومت کے سمبل کے طور قائم رکھنے پر مجبور تھے۔ کرزئی ان کے لیے ایک ’’یس مین‘‘ تھا جو ان کے اشارہ ابرو پر ہر قدم اٹھانے کو تیار تھا۔ 2009ء آن پہنچا۔ کرزئی کا عرصۂ صدارت پورا ہونے کو آیا۔ وہ پھر صدارت کا اُمیدوار بن کر سامنے آیا۔ 20 اگست 2009ء کو اسے بدترین دھاندلی کے بعد 50 فیصد ووٹوں کے ساتھ صدر چن لیا گیا۔ اس نے 24 وزیروں کی ایک لسٹ افغان پارلیمنٹ کو بھجوائی۔ ان میں سے بیشتر وہ بدترین چور تھے جن کے اعمال ناموں سے خلق خدا خوب آگاہ تھی۔ پارلیمنٹ نے 24 میں سے 17 وزیروں کو فارغ کردیا۔ کرزئی نے دوبارہ 17 نئے نام بھیجے۔ان میں سے 10 کو پارلیمنٹ نے مسترد کردیا۔ افغان الیکشن کمیشن نے جن امیدواروں کو ری جیکٹ کیا تھا۔ کرزئی نے ایک اسپیشل کورٹ بنا کر انہیں دوبارہ اقتدار کی بارہ دری تک رسائی دے دی۔ امریکی حکومت کی شہ پر یونیورسٹیوں نے کرزئی کو آنریری ڈگریاں دیں۔ یوں 2014ء تک آتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کرزئی کا افغانستان کرپشن میں صومالیہ اور شمالی کوریا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا تھا۔ کرزئی کو تاریخ ایک نااہل اور بے ضمیر حکمران کے طور پر یاد رکھے گی۔ ستمبر 2013ء میں نئے افغان صدر کے انتخابات کا پراسیس شروع ہوا۔ اکتوبر 2013 میں 26 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے۔ الیکشن کمیشن نے 16 امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیے۔ باقی 11 میں سے 3 دستبردار ہو گئے۔ 
23 نومبر پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری ہوگئے جن کے مطابق افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو 249 میں سے صرف 100 نشستیں مل سکیں۔ ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں جیت گئیں۔ 5 سال مزید گزرگئے۔ افغانستان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ جنگ جاری رہی۔ بدامنی، کرپشن، افلا س اور لاقانونیت کا بازارگرم رہا۔ اب افغانستان میں امریکی چھتری کے سائے تلے تیسری بار صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ طالبان نے اس بار بھی کسی کو نہیں چھیڑا۔ اپنی سابقہ پالیسی پر قائم رہے۔ شاید یہ تحریر شایع ہونے تک نتائج بھی آچکے ہوں۔ بعض کالم نگاروں نے اس پر خوب بغلیں بجائی ہیں کہ شاید طالبان اب انتخابی عمل میں آڑے آنے کے قابل نہیں رہے جو ان کی کمزوری اور اتحادی افواج کی برتری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ شاید اب افغانستان میں ایک سنہرا دور شروع ہونے کو ہے۔ ان حضرات کو اپنے حافظے کی کمزوری کا علاج کرانا چاہیے۔ یہ نہ ہوسکے تو کسی لائبریری میں جاکر 2009ء اور 2010ء کے انتخابات کے حالات کو ازسرِنو پڑھ لیں۔ طالبان کی پالیسی تو اسی وقت سے یہ ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے نہ آڑے آئیں گے۔ رہی یہ بات طالبان جمہوری نظام میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟
اس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں، مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے اگر افغانستان کا کوئی ہمدرد پورے خلوص سے اس ماحول میں انتخابی دنگل میں اُتر بھی جائے تو کون سا تیر مارلے گا؟ کرزئی افغانوں کے نہ سہی پشتونوں کے با پ مشہور ہیں، مگر انہوں نے اپنی قوم کے لیے کیا کرلیا؟ ایک دو بار نہیں متعدد مرتبہ انہوںنے باقاعدہ آنسو بہاتے ہوئے افغانوں کی کسمپرسی اور اپنی بے بسی پر اظہارِ افسوس کیا ہے، مگر اس سے کیا حاصل؟ اگر آنسو بہانے سے کچھ ہوتا تو سرزمینِ افغان کے مصائب و آلام پر اُمت کے اتنے آنسو بہ چکے ہیں کہ انہیں جمع کیا جائے تو کرب و بلا کا ایک سمند رموجزن ہوجائے۔ طالبان اسی لیے اس نام نہاد جمہوری ڈرامے میں حصہ نہیں لے رہے کہ وہ بے بسی اور پشیمانی کے آنسو نہیں بہانا چاہتے۔ وہ غاصب امریکی و اتحادی افواج کو وہی سبق دے کر اپنی دھرتی سے بھگانا چاہتے ہیں جو ان کے بڑوںنے برطانوی اور روسی افواج دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی قوت کے سامنے نہ آہوں کے بند باندھے جاسکتے ہیں نہ گریہ وزاری سے اسے نرمایا جاسکتا ہے۔

No comments: