Friday, March 10, 2017

بچوں کی تربیت

بسم الله الرحمن الرحيم

بچوں کی تربیت کے 130 طریقے

تصنیف :ڈاکٹر احمد المزید
ترجمہ:صلا ح الدین
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:
بچوں کی تربیت ایک فن ہے،زیادہ لوگ اس فن سے ناواقف  ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے دنیا بھر میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ڈاکٹر احمد المزید نے اختصار کے ساتھ 130 پوائنٹ لکھ کے والدین کے لیے ایک مشکل کو آسان کردیا۔ان 130 طریقوں کے ذریعے بچوں کو صحیح سمت میں رواں دواں کیا جاسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ تربیت کی ابتداء میں اگر کوئی فروگزاشت ہوجائے تو اس کا خمیازہ زندگی بھر بھگتنا پڑتا ہے۔
کتابوں کے اس انبار میں اور وقت کی ضرورت کو دیکھتے  ہوئے یہ ایک خلاصہ ہےجس میں اختصاراً بچوں کی تربیت کے بارے میں عامۃ الناس بالخصوص والدین کو آگاہ کیا گیا ہے۔شاید اس کاوش سے لوگ اپنے بچوں کی تربیت کے بارے میں مفید آگاہی حاصل کرسکیں اور وہ ان طریقوں کو بروئے کار لاکر بچوں سے فرمانبرداری کا پھل حاصل کرسکیں۔یہ 130 پوائنٹ اختصاراً ذکر کیے جاتے ہیں۔ہر شخص اپنے احوال کے مطابق اس سے درس اور تربیت حاصل کرسکتا ہے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
عقیدہ
1۔بچے کو ابتدائی طور پر عقیدہ توحید کا خوگر بنانا چاہئے۔"لاالٰہ "میں اس بات کی نفی ہو کہ کوئی حاجت روا اور معبود نہیں۔۔۔"الااللہ"میں اثبات ہو کہ صرف اللہ ہی ایک ذات ہے جو سب کا پروردگار ہے۔خلاصہ یہ کہ بچوں کو کلمہ طیبہ اور اس کا مطلب تاکید کے ساتھ ذہن نشین کرانا چاہئے۔
2۔بچے سے سوال کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو کس لیے پیدا کیا ہے؟سوال سے بچے کے اند جواب جاننے کی جستجو پیدا ہوجائے گی۔لہٰذاآپ انہیں اب یہ ذہن نشین کرادیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو اپنی عبادت اور اپنے احکام کی بجاآوری کے لیے پیدا کیا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کو مدنظر رکھیں۔
3۔بچے کے ذہن میں جہنم اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تصور بہت زیادہ نہیں ڈالنا چاہئے۔تاکہ اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ کا تصور محض ڈر اور خوف کی صورت میں متمثل نہ ہو۔بلکہ اسے یہ ذہن نشین کرانا چاہئے کہ اچھے اچھے کام کرنے پہ یہ یہ نعمتیں ملیں گی۔ہاں کبھی اگر بچہ شرارت کرے تو ہلکے انداز میں اسے جہنم اور عذاب سے بھی ڈرانا چاہئے۔
4۔بچے کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استحضارکرانا چاہئے۔اسے بتادیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو اس طرح خوبصورت بنایا،ہمیں یہ خوبصورت دنیا دی،ہمیں کھانا دیا ،پیسے دیئے وغیرہ۔اس سے بچے کی اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت پیدا ہوجائے گی۔
5۔بچے کے دماغ میں یہ بات بخوبی ڈال دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔چاہے ہم تنہا ہوں،بند کمرے میں ہوں یا چادر میں چھپے ہوں۔اس لیے تنہائی میں برائی کا سوچنا نہیں چاہئے۔
6۔بچوں کو دعائیں سکھائیں۔ہر کام کے شروع میں بسم اللہ کہنا،کھانے سے فراغت کے بعد الحمدللہ کہنا،وغیرہ دیگر اذکار اور دعائیں یاد کرادیں۔
7۔حضورﷺ کے اخلاق حسنہ اور صفات طیبہ کا ذکر بچے کے سامنے بار بار کریں۔تا کہ اس کے دل میں حضورﷺ کی محبت جاگزیں ہوجائے۔اس کے سامنے سیرت طیبہ کے واقعات پیارے انداز میں بیان کریں۔اس طرح بچہ حضورﷺ کی ذات  مبارک کو اپنا آئیڈیل بنائے گا۔بچے کو حضورﷺ پر درود بھیجنے کی بھی عادت ڈال دیں۔
8۔قضاء اور قدر کا عقیدہ بچے کو سمجھادیں۔کہ اللہ جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ خود نہیں ہوسکتا۔سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔
9۔بچوں کو ایمان کے پانچ ارکان یاد کرائیں۔یعنی کلمہ طیبہ،نماز ،روزہ،زکوٰۃ ،حج۔
10۔عقیدہ سے متعلق بچے سے سوالات کریں۔مثلاً اس سے پوچھیں کہ تمہارا رب کون ہے؟تمہارا دین کیا ہے؟ تمہارا نبی  کون ہے؟ہمیں کس نے پیدا کیا ؟کون ہمیں رزق دیتا ہے،کون ہمیں کھلاتا پلاتا ہےاور ہمیں بیماری سے شفایاب کرتا ہے؟
توحید کیا ہے؟شرک ،کفر اور نفاق کیا ہے؟مشرک،منافق اور کافر کا انجام کیا ہے؟وغیرہ

عبادت
11۔اپنے بچے کو اسلام کے پانچ ارکان کی پہچان کرائیے۔
12۔اسے نماز کی عادت ڈالیئے۔حدیث شریف میں ہے:''جب تمہارے بچے سات سال کے ہوں تو انہیں نماز کا پابند بنائیں۔اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نہ پڑھنے پر انہیں سرزنش کریں"۔
13۔لڑکوں کو اپنے ساتھ نماز کے لیے لے جایا کریں اور انہیں وضو کا طریقہ سکھائیں۔
14۔بچوں کو مسجد کا احترام اور ادب سکھائیں۔انہیں مسجد کے تقدس کا خیال رکھنے کی ترغیب دیں۔
15۔بچوں کو روزہ رکھنے کی عادت ڈالئے تاکہ بڑے ہونے کے بعد انہیں روزہ رکھنے میں مشکل نہ ہو۔روزہ رکھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
16۔بچے کو شوق دلائیں کہ وہ قرآن کریم حفظ کرے۔احادیث نبوی اور اوراد واذکار یاد کرائیں۔حفظ قرآن پر ملنے والے درجات اور ثواب کا ان کے سامنے ذکر کریں۔
17۔جب جب بھی بچہ سبق میں آگے بڑھےتو اسے اس کے مطابق انعام دیں اور حواصلہ افزائی کریں۔حضرت ابراہیم بن ادھمؒ فرماتے ہیں ،میرے والد نے ایک دن مجھے کہا:"اے بیٹے!حدیث کا علم حاصل کرو،اور جب جب بھی تم نے کوئی حدیث سنی اور اس کو یاد کیا تو تمہیں ایک درہم ملے گا۔"ابراہیم بن ادھمؒ فرمارتے ہیں اسی ترغیب اور انعام حاصل کرنے کے شوق نے مجھے علم حدیث سے بہرہ ور کیا۔
18۔بچے کو ہر وقت پڑھنے ،لکھنے اور مدرسہ کے کام میں قید نہیں رکھناچاہئے تاکہ بچہ اس کو اپنے لیے سزا سمجھ کرقرآن کریم کے حفظ اور دیگر اسباق سے متنفر نہ ہو۔
19۔جان لیں !آپ اپنے بچوں کے لیے آئیڈیل اور رہنما ہیں۔اب اگر آپ عبادت اور احکاماتِ خداوندی کی ادائیگی میں سستی اور غفلت برتیں گےتوبچے بھی آپ سے غلط اثر لے کر عبادات کی ادائیگی کو وبالِ جان سمجھیں گے اور اسے چھوڑنے میں نہیں ہچکچائیں گے۔
20۔لوگ بچوں کو روپیہ وغیرہ دیتے ہیں اور بچے بسا اوقات ان پیسوں کو جمع کرکے رکھتے ہیں۔ایسی صورت میں آپ کبھی کبھی بچوں کے سامنے اپنی جیب سے کسی فقیر کو کچھ دے دیا کریں۔یا بچوں کے ہاتھ دے دیا کریں۔اس سے بچوں میں اللہ کے راستے میں صدقہ کرنے کی تڑپ اور طاقت پیدا ہوگی۔آپ انہیں خوب ترغیب دیں کہ اپنے پاکٹ سے کچھ نہ کچھ ضرور اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔آپ احادیث اورصدقہ کے فضائل سناکر بھی بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈال سکتے ہیں۔
اخلاق کی تعلیم
21۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے بچے کو سچائی کا پیکر بنادیں تو اس کے دل میں خوف کا بیج مت اگائیں۔کیونکہ اگر سچ بولنے پر اسے ایک بار مار پڑے تو دوسری بار کی غلطی پر وہ سچ کبھی نہیں بولے گا بلکہ جھوٹ کی کہانی گڑھ کر خود کو بچانے کی کوشش کرے گا۔
22۔خود صدق و سچائی کا پیکر بن جائیں۔دھوکہ دہی اور غلط بیانی سے پرہیز کریں۔پھر دیکھیں آپ کا بچہ بھی آپ سے سچائی اور صداقت سیکھ لے گا۔
23۔بچوں کو ہمیشہ صدق وامانت کا درس دیں۔اور اس پر ملنے والی انعامات کا ذکر کریں۔
24۔غیر محسوس انداز میں بچے کا امتحان لیں کہ وہ کتناامانت دار ہے۔اور وہ کتنا قابلِ بھروسہ ہے۔
25۔بچے کو صبر کی عادت ڈال دیں۔کسی کام میں عجلت اور بلا سوچ سمجھ کے اسے سرانجام دینے سے منع کریں۔آپ یہ بات بچے کو روزہ رکھواکر اچھے طریقے سے سمجھا سکتے ہیں۔یا ایسے کام کروائیں جن میں صبر اور انتظار کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔تا کہ بچہ اطمینان اور صبر کے مفہوم سے آشنا ہوجائے۔
26۔سب بچوں کواپنی نظر میں برابر رکھیں۔بلاوجہ کسی کو زیادہ کمپنی نہ دیں تاکہ دوسرے بچے احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائیں۔برابری کا معاملہ کرنے سے ان کے ذہنوں میں عدل کی صفت آجائیگی۔
27۔ایثار کہتے ہیں دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے کو۔بچوں کو عادت ڈلوائیں کہ وہ ہمیشہ دوسرے لوگوں کو خود پر مقدم رکھیں۔انہیں صحابہ کرام کے ایثار کے واقعات سنائیں۔
28۔دھوکہ دہی ،ملاوٹ،جھوٹ اور چوری پر کتنی بڑی سزائیں ملتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر کتنے ناراض ہوتے ہیں؟بچوں کے سامنے اس کی وضاحت کریں تاکہ وہ ان مذموم کاموں سے ہمیشہ اجتناب کریں۔
29۔بچہ اگر کہیں بہادری دکھائے تو آپ اس پر شاباش دیں۔اسے بتادیں کہ بہادری اور شجاعت مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کو بھی بہادرمؤمن پسند ہوتا ہے۔
30۔سخت لہجہ اور بہت زیادہ رعب ڈالنے سے بچوں کے ذہن میں آپ کی غلط تصویر نقش ہوسکتی ہے۔اس طرح کے لہجے سے اجتناب کریں۔
31۔بچے کوعاجزی اور نرمی کا خوگر بنائیں۔اسے تکبر اور بڑائی اختیار کرنے سے روکیں۔تکبر اختیار کرنے سے آدمی اسی وقت لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔گویا تکبر کی سزا بہت جلد ملتی ہے۔
32۔بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کریں کہ اچھے خاندان اور مال واسباب سے کسی کو اونچے درجات نہیں ملتے۔بلکہ تقویٰ اور نیک نیک کام کرنے سے لوگ آگے بڑھتے ہیں اور کامیابی پاتے ہیں۔
33۔بچے کو بتادیں کہ ظلم اور زیادتی بزدل لوگوں کا کام ہے،دراز دستی اور نافرمانی آدمی کو ذلت کے گھڑے میں گرا دیتی ہے،خیانت کرنے والا ہلاکت کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
34۔بعض اشیاء میں جو باریک سے فرق پائے جاتے ہیں اس سے بچوں کو باخبر کرنا چاہئے۔مثلاً یہ کہ بہادری اور بے جا ظلم اور مداخلت میں کیا فرق ہے؟حیاء اور شرمندگی میں کیا فرق ہے؟عاجزی اور ذلت میں کیا فرق ہے؟دانائی اور دھوکہ دہیں میں کیا فرق ہے؟اس طرح کے دیگر وہ باتیں جو بچے کے علم میں نہیں ہوتیں،آپ اسے بتاتے رہیں اور ان کو پابند بنائیں کہ ان میں سے اچھے کاموں کو اپنائیں اور برے کاموں سے بچتے رہیں۔
35۔اولاد کو سخاوت والا بنائیں۔گھر میں بھی وہ سخی ہو خود پر دوسرے بہن بھائیوں کو ترجیح دیتا ہواور باہر بھی نیکی اور احسانات بانٹنے والا ہو۔
36۔کسی سے کیا گیا وعدہ ہمیشہ نبھاتے رہیں۔خاص کر اپنے بچوں سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا اسے بروقت ان تک پہنچائیں تا کہ بچے وعدہ پورا کرنے کے عادی ہوجائیں اور وعدہ خلافی سے پرہیز کی عادت اپنالیں۔
تربیت کے طریقے اور اسلامی آداب
37۔گھر میں داخل ہوتے وقت بچوں کو سلام کریں۔انہیں بھی سلام کی عادت ڈالیں۔
38۔بچوں کے سامنے کپڑے وغیرہ تبدیل نہ کریں۔اگر ضروری ہوں تو ستر کا خاص خیال رکھیں اوربچوں کے سامنے ستر کھولنے سے احتراز کریں۔
39۔پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ رکھیں۔بچوں کو بھی پڑوسیوں کے حقوق سے آگاہ کریں۔
40۔پڑوسیوں کو ایذا دینے سے احتراز کرنے کی ترغیب اور درس دیں۔
41۔والدین بڑے حسن سلوک کے مستحق ہیں۔جن کے والدین حیات نہیں ہوتے انہی سے ان کا قدر پوچھ لیں تو کچھ اندازہ ہوجائے گا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے:
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے……….کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں!
اس لیے والدین سے بہت اچھا سلوک کریں۔رشتہ داروں سے تعلق استوار رکھیں ۔ان کا خیال رکھیں۔خوشی اور غمی میں ان کے ساتھ برابر شرکت کریں۔اپنے بچوں کو ان تمام امور میں اپنے ساتھ رکھیں اورانہیں بھی والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیں۔
42۔بچوں کو بتادیں کہ لوگ اس بچے سے پیار کرتے ہیں جو مہذب ہوں اوردوسروں کو تکلیف دینے سے اجتناب کرتا ہو۔
43۔خود ہی اپنے بچوں کے لیے انہیں کے نام ایک خط یا مختصر رسالہ لکھ دیں جس میں آداب ،نصیحتیں اور وصیتیں ہوں۔بچہ اپنے نام کی یہ چیزسینت سنبھال کے رکھے گا اور سن شعور میں پہنچنے کے بعد اس پر عمل کرے گا۔
44۔بچوں کو بتادینا چاہئے کہ بعض اعمال شیطانی قسم کے ہوتے ہیں جن سے ہمیشہ پرہیز کرنا لازم ہے جیسے جھوٹ بولنا،دھوکہ دینا،گالی گلوچ کرنا وغیرہ۔
45۔دن کے آخر میں اپنے بچوں کے ساتھ مل بیٹھیں۔ان سے باتیں کریں اور روز آداب نبویﷺ میں سے ایک ادب ان کو بتائیں۔پھر سابقہ ادب کے بارے میں ان کے عمل کے بارے میں دریافت کریں کہ وہ اس پر کیسے عمل کرتے ہیں۔ممکن ہو تو لکھے ہوئے آداب بچوں سے پڑھوائیں اور آپ سن سن کے ان کی اصلاح کرتے رہیں۔
46۔بچے سے غلطی ہوجائے تو سب کے سامنے اسے ڈانٹنے اور سزا دینے سے گریز کریں۔ہاں اکیلے میں لے جاکر اسے سمجھائیں اور برے کام کے نتائج سے آگاہ کریں۔
47۔بچوں کو حتی الامکان ملامت اور ٹارگٹ نہ کریں۔بلکہ موقع کو دیکھ کر جو مناسب ہو اعتدال کے ساتھ بچوں کے ساتھ معاملہ کریں۔
48۔بچوں کے کمرے میں جانے سے پہلے ان سے اجازت لیں ۔اس طرح بچوں کو کسی جگہ داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کی عادت پڑ جائے گی۔یوں اسلام کے حکمِ استیذان پر عمل ممکن ہوجائے گا۔(اچانک ان پر داخل ہونے سے اگر وہ کوئی کام آپ سے چھپا کر کررہے ہوں تو آئندہ ایسے طریقوں سے کریں گے کہ باوجود کوشش کے آپ کو پتہ نہ چل پائے گا۔کیونکہ شیطان برے کام کرنے کے نت نئے راستے سجھاتا ہے۔ہاں کبھی خفیہ طور پر بچوں کی نگرانی اور ان کے دوستوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے۔)
49۔یہ توقع مت رکھیں کہ ایک ہی بار بچہ سمجھانے سے سمجھ جائے گا او رپھر اسے دوبارہ کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔بلکہ بچوں کو ہر وقت یاددہانی کرانی چاہئے اور ان پر نظر رکھنی چاہئے۔
50۔جب سب کھانے کے دسترخوان پہ بیٹھے جائیں تو کھانا شروع کرنے سے پہلے ذرا اونچی آواز میں بسم اللہ پڑھ لیں۔تا کہ بچوں کو کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی عادت پڑ جائے۔اسی طرح کھانے کے بعد الحمدللہ کہیں۔
51۔انسان خطا کا پتلا ہے۔خاص کر بچے تو شرارتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔بچوں کی ہر غلطی اور ہر شرارت پر انہیں پکڑنے ،سرزنش کرنے اور سزا دینے کی عادت مت بنائیں بلکہ بعض دفعہ چشم پوشی بھی کیا کریں۔اپنے سینے میں بچے کی شرارتوں کی رجسٹر مت کھولیں ۔
52۔کسی کام یں آپ سے غلطی ہوجائے تو بچے کے سامنے معذرت کرنے میں عار نہیں کر ناچاہئے۔ہوسکتا ہے وہ آپ کے معذرت خواہانہ رویہ سے اچھا سبق سیکھ لے۔
53۔بچے کو نفع وضرر کی پہچان کرایئے ،اسے اس بات پر آمادہ کریں کہ تم ایک تمیز دار بچہ ہو اور تم اچھے برے کام میں فرق کر کے اچھا کا م کروگے اور برے کام سے رکوگے۔
54۔بچوں کو کوئی خصوصی ٹاسک دے دیا کریں کہ وہ انہیں خطوط پر اپنی آگے کی زندگی کا کام کرتے رہیں۔مثلاًکسی بچے کو استاذ بننے کی ترغیب دیں۔کسی کو پائلٹ تو کسی کو ڈاکٹر وغیرہ۔
55۔بچے کی باتوں یا کسی کام کا مذاق مت اڑائیں۔اس طرح بچے میں خوداعتمادی((Self  Confidence ختم ہوجاتی ہے۔
56۔بچوں کو مبارکباد ،خوش آمدید اور خاطر تواضع کے وقت بولے جانے والے الفاظ سکھائیں۔
57۔بچے کا ناز نخرےاٹھانے میں مبالغہ نہ کریں۔
58۔دنیاکے مادّی اشیاء میں بچوں کا ذہن نہیں اٹکانا چاہئے۔مادّیت پر بھروسے کی صورت میں آدمی کے اندر اعتماد کی صفت کم ہوجاتی ہے اور وہ کوئی مضبوط قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔
59۔بچے کا دوست بن کر اس سے دوست جیسا معاملہ کریں تا کہ وہ آپ سے اپنا ہر قسم کا مسئلہ شئیر کرسکے۔
بچوں کو کھیلنے اور ورزش کا موقع دیں
60۔بچوں کو کھیلنے کے لیے کافی وقت مہیا کریں تا کہ ان کا جسمانی صحت بھی برابر ہو اور بچوں میں کھیلنے کی جو خواہش ہو وہ بھی پوری ہورہی ہو۔
61۔انہیں مفید اور ذہن کو جلا بخشنے والے کھیلوں میں مشغول رکھیں۔
62۔انہیں آزادی دیں کہ خود جو چاہے کھیلے۔البتہ آپ ان کی نگرانی کریں۔
63۔بچوں کو تیراکی ،نشانہ بازی اور اس طرح کے دیگر سرگرمیوں سے آشنا بنائیں۔
64۔بچے کے ساتھ کھیلیں اور کبھی کبھی جیتتے جیتتے اس سے کھیل ہار جائیں۔
65۔بچوں کو متوازن صحت بخش غذا فراہم کرنا چاہئے۔
66۔بچے کے اشیاء اور اس کے کھانے پینے وغیرہ کے متعلق اہتمام رکھیں۔
67۔کھانے پینے کے معاملے میں بچوں کا خیال رکھیں کہ کہیں وہ حد سے تجاوز تو نہیں کررہے ہیں؟یا وہ غیر متوازن اشیاء تو نہیں کھاتے؟
68۔بچے نے اگر کوئی شرارت کی ہو توکھانے کے دوران اسے ڈانٹنا نہیں چاہئے۔
69۔بچوں کو ان کی پسند کا کھانا کھلاتے رہیں۔جس کھانے سے انہیں دلچسپی نہیں ہوتی وہ زبردستی انہیں مت کھلائیں۔
ذہنی نشونما
70۔بچے کی بات غور سے سننی چاہئے اور اس کے ہر لفظ کو اہتمام سے سن کر اس کے مشکل کو حل کرنا چاہئے۔
71۔بچے کو ایسی تربیت دیں کہ وہ اپنی مشکلات خود حل کرنا سیکھے۔کہیں اگر آپ جانتے ہیں کہ باوجود کوشش کے وہ کامیاب نہیں ہورہا ہے تو آپ چپکے سے اس انداز سے اس کی مدد کریں کہ اسے پتہ نہ چلے۔ایسا کرنے سے اس میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور خوداعتمادی پیدا ہوگی۔
72۔بچے کو احترام اور شفقت کے نگاہ سے دیکھیں۔اس کو اچھا بدلہ دیں اگر وہ کوئی اچھا عمل کرے۔
73۔بچوں کو قسمیں کھانے پر مجبور نہ کریں بلکہ انہیں سچ بولنے کی تربیت دیں اور ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دیں کہ بغیر قسم کھائے تمہاری بات درست مانی جاسکتی ہے۔
74۔زیادہ ڈراوا دینے اور سزا کی باتیں سنانے سے پرہیز کریں۔
75۔بچے کو یہ احساس مت ہونے دیں کہ وہ برا بچہ ہے یا وہ نالائق غبی ہے۔
76۔اکثر بچے بہت سوالات کرتے ہیں۔ایسی صورت میں سوال کرنے پر بچے کو ڈانٹنا نہیں چاہئے بلکہ اس کے تمام سوالات کے تفصیلی اور تسلی بخش جوابات دیں ۔
77۔بچے کو محبت اور پیار سے سینے سے لگائیں اور اسے احساس دلائیں کہ والدین تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔اور تم انہیں بہت عزیز ہو۔
78۔بعض معاملات میں بچے سے مشورہ لیں اور اس کے مشورہ پر عمل کریں۔اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آتی ہو تو سمجھائیں اور اس کی اصلاح کریں۔
79۔گھر کے اندر اپنی پسند کی جگہ میں ٹھہرنے کے معاملے میں بچے کی طبیعت کا خیال رکھیں۔
اجتماعی مراکز اور حلقوں میں بچے کی تربیت
80۔بچوں کو دوڑ ،حفظ قرآن اور علمی مقابلوں میں لے جایا کریں۔حفظ قرآن کے حلقوں میں انہیں بٹھائیں۔دیگر تفریحی سرگرمیوں میں انہیں شریک کریں تا کہ بچوں میں اضافی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔
81۔بچے کو مہمان نوازی سکھائیں۔انہیں تربیت دیں کہ مہمانوں کے سامنے کھانا ،چائے یا پھل کیسے رکھا جاتا ہے اور انہیں کھانے کی دعوت کیسے دی جاتی ہے۔
82۔جب آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوں اور اس دوران آپ کا بچہ آجائے تو آپ اسے خوش آمدید کہیں اور دوستوں کو اچھے انداز میں اس کا تعارف کرائیں۔
83۔اجتماعی اور امدادی سرگرمیوں میں بچوں کو شرکت کا موقع دیں۔مثلاً یتیموں اور بیواؤں کی خدمت اور مدد کرنے کے موقع پر بچوں کو آگے کریں تا کہ ان میں معاشرے کے ان بے کس لوگوں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔
84۔بچے کو بازار میں خریدوفروخت کی تربیت دیں۔حلال کمائی کی فضیلت اور طریقے بتائیں۔
85۔بچوں کو تربیت دیں کہ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کریں اور جہاں تک ہوسکے ان کی تکلیف کو کم کرنے میں مدد کریں۔؎
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے              آتے ہیں جو کام دوسروں کے
86۔بچے کے گردن پر ساری دنیا کا بوجھ مت لادیں۔مطلب یہ کہ اس کے سامنے دنیا کی ایسی تصویر مت پیش کریں جس سے بچے کا سارے جہان کی فکر لاحق ہوجائے۔
87۔آپ جو بھی کوئی اجتماعی فائدے یا امدادی سرگرمی کا کام کرتے ہیں اس کا ذکر بچے کے سامنے کریں۔
88۔گھر کے باہر بعض کاموں کے لیے بچوں کو بھیجا کریں۔اس سلسلے میں آپ ان پر پورا عتماد رکھیں اور ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔
89۔بچہ اگر خود ہی کسی دوسرے بچے کو دوست بنانا چاہے تو بنا کسی معقول وجہ کے اس کی دوستی ختم نہ کرائیں ۔ہاں بچوں کو اچھے اور نیک دوست بنانے کی نصیحت کریں۔

بچوں کی صحت کا خیال رکھیں
90۔بچوں کی صحت کا بہت خیال رکھیں۔انہیں تندرست رکھیں۔
91۔بچوں کو وقت پر کھانا دیں اور اس معاملے میں غفلت نہ برتیں۔
92۔دوائی کی جتنی مقدار مقرر ہے اس سے زیادہ بچے کو نہ دیں۔
93۔ماثور دعاؤں اور قرآنی آیات سے اس پر دم کریں۔
94۔بچوں کو جلدی سونے اور صبح کو جلدی اٹھنے کا عادی بنائیں۔
95۔بچے سے صفائی ستھرائی کا اہتمام کراوئیں۔ان کے بدن ،دانت اور کپڑے ہمیشہ صاف ستھرے ہونے چاہئیں۔
96۔مرض کے زیادہ ہونے کا انتظار نہ کریں بچہ وقت پر معالج کو دکھائیں اور دوا وغیرہ کا انتظام کریں۔
97۔متعدی امراض(دوسروں کو لگنے والی بیماریاں) جن لوگوں کو ہوں ان سے بچوں کو دور رکھیں۔
98۔بچے کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے۔
99۔اللہ تعالیٰ کے حضور بیماری سے شفا کی التجاء کریں۔تمام بیماریوں سے شفاء اللہ تعالیٰ سے مانگیں اور اسی کی طرف رجوع کریں۔
اضافی سرگرمیاں
100۔بچوں کے سامنے چیستان یعنی پہلیلیاں رکھیں اور ان سے جواب ڈھونڈنے کا کہیں۔
101۔بچے سے مضامین لکھوائیں۔کوئی موضوع دے کر اپنے الفاظ میں اس پر لکھنے کا ٹاسک دے دیں۔
102۔بچہ جو کچھ لکھتا ہے آپ اسے پڑھتے رہیں۔غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں اور روز نئے اسلوب اور الفاظ کا استعمال سکھائیں۔
103۔بچہ اگر کسی عبارت میں کوئی نحوی یا لغوی غلطی کررہا ہو تو اس کی بروقت اصلاح کریں۔اصلاح کو دوسرے وقت پر مت چھوڑیں مبادا کوئی غلطی ایسی پکی نہ ہوجائے جو آئندہ بھی بچے کے ذہن میں رہے۔
104۔بچے سے عبارت بلند آواز سے پڑھوائیں تا کہ اس میں خود اعتمادی پیدا ہو اور اس کا تلفظ ٹھیک ہوجائے۔ادائیگی میں اسے آسانی ہو۔
105۔بچے کو اختیار دیں کہ وہ کونسی کتاب اور کونسی کہانی وغیرہ پڑھنا چاہتا ہے۔سکول کی طرف سے متعین کردہ نصاب کے علاوہ یہ ایک اضافی سرگرمی ہوگی جس سے بچہ بڑا فائدہ حاصل کرے گا۔
106۔آپ جو بھی چیز پڑھتے ہیں اپنے بچے کو بھی اس کے مطالعے میں شریک کریں اور جگہ جگہ اس کی رہنمائی کریں۔اگر آپ کوئی بڑی کتاب یا موضوع کا مطالعہ کررہے ہیں تو اس کے بارے میں بچے کو اختصاراور آسان انداز میں تعارف کرائیں۔
107۔کھیل کھیل میں جو سبق دیا جائے وہ تاحیات یاد رہتا ہے۔آپ بھی بچوں کو مفید کھیل کھلائیں اور اس میں پوشیدہ سبق کا آخر میں بچوں سے ذکر کریں۔
108۔بچے کو درسی اسباق میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کا شوق دلائیں۔
109۔بچےسے تعلیم کے دوران حاضری اور محنت کی پابندی کرائیں تا کہ وہ امتحان میں اچھے نتائج حاصل کرے۔
110۔شعر وادب کے ساتھ دلچسپی پیدا کریں۔بچوں کو گزرے لوگوں کے اشعار اور ادبی شذرات یاد کرائیں۔ان چیزوں کے ساتھ دلچسپی پیدا کریں۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بچوں کو قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ یاد کرائیں۔احادیث میں ادب بھی ہے اور سبق بھی!
111۔عربی ادب یا جس زبان میں بھی ہو بچے کو اس کی فصاحت وبلاغت کے متعلق مثالیں اور عبارات یاد کرائیں۔
112۔قوت بیان اور ملکہ خطابت ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی خیر کی بات بہترین انداز میں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔بچوں کو خطابت کی تربیت دینی چائے۔
113۔گفتگو اور ورزش کے مقابلوں کا بچے میں شوق پیدا کریں اور اسے تربیت دیں۔
114۔جسم کے مضبوط بنانے اور توانا  رہنے کےلیے بچے کو اپنے ساتھ شریک کریں۔
115۔بچے کو مادری زبان کے علاوہ  کوئی دوسری مشہور زبان بھی سکھلائیں۔

اچھے کام پر بچوں کو انعام دیں اور برے کام کرنے پر مناسب سزا تجویز کریں
116۔کونسے اعمال پر ثواب ملتا ہے اور کونسے کاموں پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر سزادیتے ہیں،سمجھانے اور دل میں ڈالنے والے انداز میں بچوں کے سامنے اس کا تذکرہ کریں۔پھر جب بچے اچھا کام کریں تو انہیں انعام دیں یا کم از کم شاباش دیں اور اگر کوئی شرارت کریں تو وقت کے مناسب سزا دیں لیکن سزا میں مبالغہ نہ کریں۔
117۔بچوں کو انعام زیادہ دیں ،سزا سے حتیٰ الامکان پرہیز کریں۔
118۔انعام دینے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ہر وقت پیسے دینا ٹھیک نہیں بلکہ موقع محل کو دیکھ کر ویسا انعام دیں۔مثلاًاسے کسی سفر میں ساتھ لے جائیں،کمپیوٹر میں کوئی گیم کھیلنے کی اجازت دیں،کوئی تحفہ دیں یا دوست کے ساتھ باہر گھومنے کی اجازت دیں۔
119۔سزائیں طرح طرح کی ہوتی ہیں۔ہمیشہ مار پیٹ مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔کبھی صرف غصے سے دیکھنےسے بھی مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔کبھی صرف زبانی غصہ کرنے سے،کبھی ایک عرصے تک بات چیت نہ کرنے سے،کبھی یومیہ جیب خرچ نہ دینے سے اور کبھی ہفتہ وار تفریح منانے کی اجازت نہ دینے سے بچہ سبق حاصل کرلیتا ہے۔
120۔یاد رکھیں!مناسب سزا بچے کو آئندہ شرارت کرنے سے روکتا ہے اور اسے بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔
121۔یاد رکھیں حضور ﷺ نے کبھی کسی بچے کو نہیں مارا ہے۔دورِنبویؐ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ آنحضرتﷺ نے کسی بچے کو مارا پیٹا ہو یا سزا دی ہو۔اس لیے مارپیٹ سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہئے۔
122۔پہلی مرتبہ بچہ کوئی شرارت کرے تو اسے ماریں نہیں بلکہ مناسب تنبیہ کرتے ہوئے اس سے آئندہ نہ کرنے کا وعدہ لیں۔
123۔سزا دیتے وقت سخت دلی سے کام نہ لیں۔نہ حد سے بڑھے ہوئے غصے کے دوران سزا دیں۔کہیں ایسا نہ ہو آپ سزا میں حد سے تجاوز کر جائیں۔
124۔جہاں سزا دینی ناگزیر ہو وہاں بچے کو سزا کا سبب بھی بتادیں کہ تمہیں اس غلطی پر یہ سزا دی جارہی ہے۔
125۔بچے کو کبھی ایسا محسوس نہ ہونے دیں کہ اس کو سزا دینے میں آپ کو لطف آتا ہے یا تمہارے دل کو اس سے سکون ملتا ہے۔یہ قبیح ظلم ہے۔
126۔لوگوں کے سامنے بچے کو نہ ماریں۔بالخصوص اس کے دوستوں کی موجودگی میں اسے ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی نہ کریں۔ہاں دوستوں کی موجودگی میں عمومی انداز میں غلطی کی نشاندہی اور اس سے بچنے کی تاکید کریں۔
127۔بچوں کو چہرے پر مت ماریں۔مارنے میں شدت نہ کریں۔بہت زور سے نہ ماریں کہیں انہیں حد سے زیادہ تکلیف نہ اٹھانی پڑجائے۔دور سے کوئی سخت چیز بچے پر نہ پھینکیں اس سے بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔
128۔بعض دفعہ بچہ غلطی کرکے بھاگ جاتا ہے اور ہاتھ نہیں آتا۔باپ اس سے وعدہ کرکے کہتا ہے آجاؤ میں ماروں گا نہیں۔اس وقت اپنے وعدے کو یاد رکھیں۔ایسا نہ ہو ہاتھ آنے پر آپ اس کی پٹائی شروع کردیں۔تا کہ بچے کو آپ پر مکمل اعتماد رہے ۔
129۔بچے کو احساس دلادیں کہ یہ مارا ماری بھی تو تمہاری اصلاح کے لیے کرتا ہوں ورنہ اس چیز میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں۔تمہاری محبت ہے کہ میں تمہیں سرزنش کرتا ہوں ورنہ مجھے ڈانٹ ڈپٹ اچھا نہیں لگتا۔
130۔بچے کو فلسفہ سزا کے بارے میں آگاہ کریں۔اسے بتادیں کہ سزا محض تکلیف دینے اور ٹارچر کرنے کے لیے جائز نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف تادیب کے لیے دی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے ہم رہنمائی اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق کے خواستگار ہیں۔اور درود وسلام ہو نبی پاکﷺ پر جو ہم سب کا سرتاج اور تمام مخلوقات میں افضل ہیں۔
نسأل الله الهداية والتوفيق والسداد وصلى الله وسلم على نبينا محمدو علی آلہ و صحبہ اجمعین۔۔۔۔۔


No comments: