Friday, March 10, 2017

مرزا مظہر جان جاناں

مرزا مظہر جان جاناں (1699-1781 )کی ایک عمدہ غزل 

. . . 
مرزا مظہر جان جاناں ر ح امام شاہ ولی اللہ ر ح کے ہم عصر با کمال صوفی بزرگ تھے جن کی طبیعت کی حساسیت اور لطافت کے قصے معروف ہیں. آپ کا فارسی کلام حلاوت وطلاوت میں اعلا ہے. اپنی شہادت کی امکانی پیشگوئی فارسی کے اس شعر میں کر دی تھی جو اب ان کی لوح مزار کا حصہ ہے : بہ لوح تربتے من یافتند از غیب تحریرے 
کہ ایں مقتول را جز بے گناہی نیست تقصیرے 
اردو میں تھوڑا لکھا، تقریبا سو کے قریب اشعار. 
یہ خوب صورت شعر انہی کا ہے : 
برگ حنا اپر لکھو احوال دل مرا 
شاید کہ جا لگے یہ کسی دل ربا کے ساتھ 
. . . . 
ان کی ایک خوبصورت غزل جس میں زہدیہ عنصر نمایاں ہے :
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا 
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا 
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے 
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا 
الم سے یاں تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا 
ڈبایا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خانداں اپنا 
رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی 
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشق بدگماں اپنا 
مرا جی جلتا ہے اس بلبل بے کس کی غربت پر 
کہ جس نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا 
جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے 
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا 
کوئی آزردہ کرتا ہے سجن کو اپنے اے ظالم 
کہ دولت خواہ اپنا، مظہر اپنا، جان جاں اپنا 

No comments: