Wednesday, March 15, 2017

کیا ہم آزاد ہیں؟؟


کیا ہم آزاد ہیں؟؟
تحریر: فرہاد علی

 جسمانی طور پر ہم میں سے ہر شخص آزاد ہے مگر تقریبا ہر ایک نے اپنی فکر اور عقل کسی نہ کسی کے پاس گروی رکھی ہے ۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے . عام طور پر جب فکری غلامی کی بات آتی ہے تو ہم انگریز اور انگریزی نظام کی بات کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تک انہیں خطوط پر استوار ہے جن کی بناء انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ ہمارا نظام عدلیہ انہیں کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ ہماری بیوروکریسی میں وہی سوچ برقرار ہے ۔ یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور یہ ہمارا قومی سطح کا فکری بحران ہے مگر اس کے علاوہ ہم انفرادی اور نچھلی سطح پر بھی فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور یہ غلامی  زندگی کے ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
 مذہب کا  معاملہ ہو تو ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کے واضح احکامات میں یہ وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا گردان کرتے ہیں لیکن اپنے پسندیدہ مذہبی سکالرز کو عصمت کے مسند پر بٹھا دیتے ہیں جس سے کوئی غلطی ہو سکتی ہے نہ کوئی علمی خطاء ۔ اگر یہ مذہبی سکالر بدقسمتی سے مناظر بھی ہوا تو اس کا علمی مقام امام ابو حنیفہ رح ، امام جعفر صادق رح ، امام ابن تیمیہ رح اور امام احمد رضا خان بریلوی رح سے کم سمجھنا اس کی توہین ہوگی ۔
 یہاں میں آپ کو عجیب صورت حال کی دلچسپ کہانی سناتا ہوں ۔ مولانا قاسم صاحب شیرگڑھ مدرسہ کے مہتمم اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں میں شامل ہیں ۔ اس کی للہیت ، اخلاص اور خدمت دین کی ایک دنیا گواہ ہے ۔ ان کے شاگرد بلاشبہ ہزاروں میں ہیں ۔ اپنے علاقے شیرگڑھ سے بدعات کے خاتمے میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ چند دن پہلے میں نے ایک دینی مدرسہ کا اشتہار دیکھا ۔ یہ اشتہار دیکھ کر میرا دل دکھ و درد سے بھر گیا ۔ اس اشتہار میں مولانا قاسم صاحب اور شیرگڑھ کے دیگر  حدیث کے اساتذہ کا نام کونوں میں چھوٹے چھوٹے لکھے ہوئے تھے جبکہ ایک نئے نئے "مناظر اسلام" کا نام درمیان میں پورے اشتہار میں نمایاں تھا حالانکہ اس صاحب کے اساتذہ بھی مولانا قاسم کے شاگرد ہوں گے اور میرا گمان ہے کہ ان کی عقل کی ڈاڑھ بھی نہیں نکلی ہوگی ۔  نیز اس مناظر کی خدمت دین کا حال یہ ہے کہ آئے روز ان کی برکت سے ہمارے آس پاس کے علاقوں میں اہلحدیث ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے جھگڑے ہو رہے ہیں ۔ یہ جھگڑے گھروں میں بھی جاری ہیں  اور گاوں محلہ کی سطح پر بھی ۔
  ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ نام بڑا یا چھوٹا لکھنے سے بھلا کیا ہوتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ نام کا نہیں بلکہ اس سے واضح ہونے والے رجحان اور اہمیت کا ہے ۔ اشتہارات میں انہیں کا نام بڑا لکھا جاتا ہے جن کی قدر ومنزلت نگاہوں میں نمایاں ہو ۔ یہاں مجھے عوام الناس سے بھی ایک گلہ کر لینے دیجئے کہ ان کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرہ میں پنپتے ہیں اگر عوام ان کو سننے نہیں جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو کیا ایسے لوگ معاشرے میں آگے بڑھ سکیں گے ؟؟ اس کا جواب یقینا نہیں میں ہے تو پھر عوام الناس کو اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ تمام علماء پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا جائے ۔ یہ طرز عمل تو گمراہی تک لے جانے والا ہے البتہ جس طرح ہم بیماری کے علاج کے لئے اچھے ڈاکٹر اور تعلیم کے بہترین استاذ کھوجتے ہیں اسی طرح ہمیں حق شناس علماء بھی ڈھونڈنے چاہئے اور علماء کے بھیس میں تفرقہ ڈالنے والوں سے ہوشیار رہنا چاہئے ۔
 بہرحال اتنی بات واضح ہے کہ ہم قومی سطح پر ہی نہیں نجی سطح پر بھی سخت فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ غلامی ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائی جاتی ہے ۔ مذہب کے علاوہ جس میدان میں غلامی کی زنجیروں نے ہمارے قلوب و اذہان کو سب سے زیادہ جھکڑ کر رکھا ہے وہ سیاست کا میدان ہے لیکن کالم کا دامن محدود ہے اس لئے اس موضوع پر اگلی نشست میں بات کریں گے ان شاء اللہ ۔