Monday, March 20, 2017

کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟

کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟
تحریر: فرہاد علی
(حصہ دوم)
اسی عنوان کے تحت پچھلے کالم میں ہم نے مذہبی خصوصا فرقہ پرست مولویوں کی غلامی میں گرفتار لوگوں کا تذکرہ کیا تھا ۔ آج ہم سیاست دانوں کے بے دام غلاموں کو زیر بحث لائیں گے ۔
ربط و تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے سابقہ  کالم کا سرنامہ دوبارہ پیش خدمت ہے ۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ "جسمانی طور پر ہم میں سے ہر شخص آزاد ہے مگر تقریبا ہر ایک نے اپنی فکر اور عقل کسی نہ کسی کے پاس گروی رکھی ہے ۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے . عام طور پر جب فکری غلامی کی بات آتی ہے تو ہم انگریز اور انگریزی نظام کی بات کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تک انہیں خطوط پر استوار ہے جن کی بناء انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ ہمارا نظام عدلیہ انہیں کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ ہماری بیوروکریسی میں وہی سوچ برقرار ہے ۔ یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور یہ ہمارا قومی سطح کا فکری بحران ہے مگر اس کے علاوہ ہم انفرادی اور نچھلی سطح پر بھی فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور یہ غلامی  زندگی کے ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے "
سیاست کے میدان میں اس غلامی کی داستانیں روز رقم ہوتی ہیں ۔ یہاں ایم کیو ایم کے سابق رہنما پاک سرزمین پارٹی کے بانی  مصطفی کمال کی ایک بات یاد آتی ہے ۔ مصطفی کمال کہتے ہیں کہ الطاف حسین اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کسی مخالف کے بارے میں کہتے تھے کہ فلاں  کو ٹوک دو ۔ یہ بیان میڈیا پر براہ راست چل رہا ہوتا ۔ جب میڈیا سے ہوتے ہوئے اس پر ہنگامہ کھڑا ہوتا تو ہم پوری پوری رات بیٹھ کر ڈکشنریاں چھانتے اور ٹوک دو کہ معنی ڈھونڈتے تاکہ اس کو صحیح ثابت کیا جا سکے ۔ یہی حالت ہر سیاسی کارکن کی ہے چاہے اس کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہو یا سیکولرزم کے علمبردار جماعتوں سے ہو ۔ اگر مولانا فضل الرحمن ایک بار کہہ دیں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے تو جمعیت کا ہر کارکن اس کو ثابت کرنا اور حرف آخر سمجھنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے لئے گھنٹوں بیٹھ کر بحث کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ چاہے اس کارکن کو عمران خان کے بیک گراوںڈ کا سرے سے علم ہی نہ ہو ۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات بھی عرض کردوں کہ ہم باہمی اختلافات کو ہمارے معاشرے کی روایتی ساس کی طرح اس نہج پر لے کر جاتے ہیں جہاں سے واپس لوٹنے کے راستے مسدود ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے لیڈروں کو سپورٹ کرنے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کو اگر اسی لیڈر نے مخالفین کے ساتھ اتحاد کی حامی بھرلی تو ہم دنیا کو اپنے سابقہ رویے کے بارے میں کیا منہ دکھائیں گے ۔ چنانچہ جب مولانا فضل الرحمن نے یہ کہا کہ ہر ایجنٹ غدار نہیں ہوتا اور جمعیت اور پی ٹی آئی نے بلدیاتی انتخابات میں بعض حلقوں میں اتحاد کیا تو دونوں پارٹیوں کے ان کارکنان کی حالت دیکھنے کی تھی جنہوں نے مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے اختلاف کو ذاتی جھگڑے کی طرح پیش کیا تھا ۔ ایسے لوگوں کی حالت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی تھی ۔

اسی طرح اگر عمران خان گھر آنے والے مہمانوں کی بے عزتی کرکے ان کو پھٹیچر کہہ دیں تو ہر انصافی اس کو عین حق سمجھنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے ۔ یہی حالت مراد سعید اور جاوید لطیف کے حالیہ جھگڑے کے وقت دیکھنے کو ملی ۔ بہت سارے ن لیگی کارکن جاوید لطیف کو سپورٹ کرتے دیکھے گئے حالانکہ انہوں نے انتہائی گھناونا طرز عمل اختیار کیا تھا ۔ جبکہ ایسے انصافی بھی کم نہیں تھے جنہوں نے مراد سعید کو فرشتہ ثابت کیا ۔ اس موقع پر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مراد سعید کی ماضی میں کی گئی زبان درازیوں پر تنقید کرتا ۔ یہی صورت حال ہر پارٹی کے کارکنان کی ہے ۔ پاکستان کو کھوکھلا کرنے والی پیپلز پارٹی کے جوشیلے عقیدت مند آج بھی جناب زرداری صاحب کو اس ملک کا آخری نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔
جب ایک پارٹی کوئی اچھا قدم اٹھاتی ہے تو مخالف پارٹی کا لیڈر اس کے کارنامہ کو کم تر ثابت کرنے کے لئے اس کا مذاق اڑاتا ہے جس طرح غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہہ کر ن لیگ کے مثبت اقدام کا مذاق اڑایا گیا ۔ اگر ہم فکری غلام نہ ہوتے تو اس موقع پر اپنے لیڈر سےاختلاف کرتے اور دوسری پارٹی کے اچھے اقدامات کی تحسین کرتے مگر ہم میں سے ہر کارکن اپنے لیڈر کے دماغ سے سوچتا ہے اور اسی کی بولی بولتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم نے اپنی عقل اور فکر اپنے لیڈروں کے پاس گروی رکھی ہے اور ہم سیاسی لیڈروں کے بے دام غلام ہیں ۔ جب ہم خود اپنی عقل سے سوچتے نہیں ، اپنی آنکھوں سے دیکھتے نہیں اور اپنی زبان سے بولتے نہیں تو یہی سوال سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟

Sunday, March 19, 2017

دعا



دعا
تحریر: عظیم الرحمن عثمانی
جن افراد کے بارے میں ہمیں نیک ہونے کا گمان ہوتا ہے انہیں ہم اپنے لئے دعا کا کہتے ہیں. اسی طرح اس بات کو بھی قبول عام حاصل ہے کہ بچوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے. وجہ یہی کہ بچے نسبتاً معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہوتے ہیں. گویا ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی اللہ کے بندے کے گناہ کم اور نیکیاں زیادہ ہوں تو اس کی دعا کی قبولیت کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے. اب اگر میں آپ سے کہوں کہ ایک راستہ ایسا بھی ہے جس کے ذریعے ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں اللہ کے ایسے بندے آپ کیلئے دعا گو ہوجائیں گے جو گناہوں سے مکمل پاک ہیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ مجھے یقین ہے کہ ہر عقلمند اور صاحب ایمان ایسے راستے کو لپک کر اپنانا چاہے گا.
 دوستو متعدد احادیث صحیحہ میں یہ مضمون معمولی رد و بدل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے خیر و فلاح کی کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کہتے ہیں۔ وَلَکَ مِثْلُ ذاَلِکَ یعنی اللہ کے بندے، یہی چیز اللہ تعالیٰ تجھے بھی عطا فرما دے۔ یعنی ہر مسلمان کے لیے کسی بہتری کی دعا کرنا، درحقیقت فرشتوں سے اپنے لیے بھی دعا کرانے کی ایک یقینی تدبیر ہے۔ سوچیں کہ ملائکہ سے زیادہ ہم میں سے کون عبادت گزار ہے اور کون گناہوں سے پاک ہے ؟ پھر کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ ملائکہ آپ کے لئے دعا گو ہوا کریں؟ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آدمی کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں ردّ نہیں ہوتی یعنی ضرور قبول کر لی جاتی ہے۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ اپنے بھائی یا کسی اجنبی کیلئے اس کے پیٹھ پیچھے جب دعا مانگی جاتی ہے تو اس میں محبت و اخلاص کی موجودگی لازمی ہوتی ہے. غور کیجیئے تو آپ صرف ان ہی کیلئےعموماً دعا کر پاتے ہیں جنہیں اپنے دل سے قریب پاتے ہیں. افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوسروں کیلئے دعا کرنے کے معاملے میں بخل یعنی کنجوسی سے کام لیتے ہیں. شائد دعا کے عین درمیان بھی ایک خاص قسم کی خود غرضی ہم پر غالب ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کیلئے کیوں دعا کریں؟ یہی وقت اپنے لئے دعا کیوں نہ کرلیں؟ تو میرے بھائی جان لیں کہ ہمارا رب بہت غنی ہے وہ اس ادا پر اور بھی نوازتا ہے کہ اس کا ایک بندہ اسکے کسی دوسرے بندے کی حاجت کو محسوس کرکے خیر کی دعا مانگ رہا ہے.
 اسی تناظر میں ایک قیمتی نصیحت آپ کو بتاتا ہوں جو میری اپنی زندگی کا مستقل حصہ ہے. میں جب بھی کسی کی ترقی دیکھتا ہوں، اسے خوش دیکھتا ہوں، کامیاب دیکھتا ہوں یا اسے حاصل کسی نعمت کو دیکھتا ہوں تو فوری دل سے اس کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے مزید برکت دے اور نظر بد سے محفوظ رکھے. اس میں یہ قید نہیں ہے کہ میں فرد کو جانتا ہوں یا نہیں. مجھے اگر کوئی زبردست گاڑی بھی روڈ پر چلتی نظر آئے تو فوری اس کے لئے برکت اور حفاظت کی دل سے دعا کرتا ہوں. حالانکہ میں میں اس گاڑی کے مالک سے زندگی میں کبھی نہیں ملا. آپ بھی اس عادت کو فوری اپنا لیجیئے. جس کو بھی کسی نعمت میں دیکھیں جو آپ کو حاصل نہیں تو اس کیلئے دل سے دعا کریں کہ یا اللہ میرے اس بھائی کی حفاظت کیجیئے اور اسے نظر بد سے بچائیں اور اسکی اس نعمت میں مزید اضافہ فرمائیں. آمین. شروع میں ایسا کرنا طبیعت پر ممکنہ طور پر بھاری گزرے گا مگر آہستہ آہستہ یہ اچھی روش آپ کی شخصیت کا جزو بن جائے گی. اس کی وجہ سے آپ کو کم از کم تین بڑے فائدے ہونگے. پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح آپ کبھی بھی کسی کے حسد میں گرفتار نہیں ہونگے ان شاء للہ. دوسرا فائدہ یہ کہ آپ کی شخصیت مثبت سے مثبت تر ہوتی چلی جائے گی اور آخری یعنی تیسرا فائدہ یہی کہ نیک ملائک آپ کیلئے دعا گو ہوجائیں گے.

 ====عظیم نامہ====

Thursday, March 16, 2017

کیا آپ جانتے ہیں کہ ISO کیا ہے؟



انٹرنیشنل سٹینڈرڈ آرگنائزیشن(ISO)

کیا آپ جانتے ہیں کہ ISO کیا ہے؟

ہر کمپنی یہی چاہتی ہے کہ اس کا کاروبار خوب پھلے پھولے اور اس کے پراڈکٹس کو مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل ہو۔ گاہک بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک ایسی کمپنی کا مال خریدیں جس کی کوالٹی سٹینڈرڈ ہو۔کمپنیاں اس چیز کو ٹوٹل کوالٹی منیجمنٹ (TQM) کا نام دیتی ہیں۔کمپنی جب یہ سوچتی ہے کہ اس کے پراڈکٹس کو مارکیٹ میں پذیرائی حاصل ہو تو اس کے لیے کمپنی اپنی پیداواری مصنوعات کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔لیکن کوالٹی کی بہتری کا تصور ہر ایک آدمی کا اپنا ہوتا ہے جو ایک دوسرے بہت مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلا ایک سٹورکیپر پراڈکٹ کی کوالٹی کو جس طرح بہتر تصور کرتا ہے گاہک شایداس سے الگ طور پر اسے بہتر قرار دینے پر مصرہو۔
اس مقام پر’’ آئی ایس او 9000‘‘کام آتا ہے۔ یہ اصطلاح عالمی معیارات کے ایک سلسلے کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ کوالٹی کی ضمانت کی تعریف مہیا کرتا ہے۔ یہ نظام انٹرنیشنل آرگنائزیشن فاراسٹینڈرڈائزیشن (آئی ایس او)نے بنایا ہے اور دنیا میں 90ملکوں نے اسے اپنایا ہے۔ آئی ایس او میں تقریباً 100ممالک کے قومی معیارات کے نمائندگان شامل ہیں۔ اس ادارے کا مقصد دنیا بھر میں مصنوعات اور خدمات کے بین الاقوامی تبادلے کو فروغ دینا ہے اور دنیا بھر میں دانشورانہ، سائنسی، تکنیکی اور معاشی معاملات میں بین الاقوامی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ 
آئی ایس او(ISO) کا تعارف:
یہ ادارہ بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تاکہ تجارت کے معیار کو بہتر رکھا جاسکے اور ایک اچھے طریقے سے چیزوں کی پیداوار ہو۔
23 فروری 1947ء کو اس آرگنائزیشن نے بین الاقوامی انڈسٹری کے لیے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ اس آرگنائزیشن کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں ہے۔ 2013ء تک 164 ممالک میں اس تنظیم کا دائرہ کار وسیع ہوچکاہے۔ یہ پہلی تنظیم ہے جو بین الاقوامی اقتصادیات کے فروغ کے لیے عمل میں لائی گئی۔
ISO ایک غیر سرکاری ادارہ ہےاور اب تک اس کے ممبر ممالک کی تعداد 164 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ادارہ دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کے درمیان بہترین تجارت کے فروغ اور اس راستے میں پیش آنے والے مسائل کا حل نکالتا ہے۔ اس ادارے نے اب تک 20،000 کے قریب معیاری اشیاء کی تجارت کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا ہے جس میں فوڈ سیفٹی پروگرام کے علاوہ زراعت اور صحت کے مسائل بھی شامل ہیں۔

Wednesday, March 15, 2017

کیا ہم آزاد ہیں؟؟


کیا ہم آزاد ہیں؟؟
تحریر: فرہاد علی

 جسمانی طور پر ہم میں سے ہر شخص آزاد ہے مگر تقریبا ہر ایک نے اپنی فکر اور عقل کسی نہ کسی کے پاس گروی رکھی ہے ۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے . عام طور پر جب فکری غلامی کی بات آتی ہے تو ہم انگریز اور انگریزی نظام کی بات کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تک انہیں خطوط پر استوار ہے جن کی بناء انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ ہمارا نظام عدلیہ انہیں کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ ہماری بیوروکریسی میں وہی سوچ برقرار ہے ۔ یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور یہ ہمارا قومی سطح کا فکری بحران ہے مگر اس کے علاوہ ہم انفرادی اور نچھلی سطح پر بھی فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور یہ غلامی  زندگی کے ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
 مذہب کا  معاملہ ہو تو ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کے واضح احکامات میں یہ وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا گردان کرتے ہیں لیکن اپنے پسندیدہ مذہبی سکالرز کو عصمت کے مسند پر بٹھا دیتے ہیں جس سے کوئی غلطی ہو سکتی ہے نہ کوئی علمی خطاء ۔ اگر یہ مذہبی سکالر بدقسمتی سے مناظر بھی ہوا تو اس کا علمی مقام امام ابو حنیفہ رح ، امام جعفر صادق رح ، امام ابن تیمیہ رح اور امام احمد رضا خان بریلوی رح سے کم سمجھنا اس کی توہین ہوگی ۔
 یہاں میں آپ کو عجیب صورت حال کی دلچسپ کہانی سناتا ہوں ۔ مولانا قاسم صاحب شیرگڑھ مدرسہ کے مہتمم اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں میں شامل ہیں ۔ اس کی للہیت ، اخلاص اور خدمت دین کی ایک دنیا گواہ ہے ۔ ان کے شاگرد بلاشبہ ہزاروں میں ہیں ۔ اپنے علاقے شیرگڑھ سے بدعات کے خاتمے میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ چند دن پہلے میں نے ایک دینی مدرسہ کا اشتہار دیکھا ۔ یہ اشتہار دیکھ کر میرا دل دکھ و درد سے بھر گیا ۔ اس اشتہار میں مولانا قاسم صاحب اور شیرگڑھ کے دیگر  حدیث کے اساتذہ کا نام کونوں میں چھوٹے چھوٹے لکھے ہوئے تھے جبکہ ایک نئے نئے "مناظر اسلام" کا نام درمیان میں پورے اشتہار میں نمایاں تھا حالانکہ اس صاحب کے اساتذہ بھی مولانا قاسم کے شاگرد ہوں گے اور میرا گمان ہے کہ ان کی عقل کی ڈاڑھ بھی نہیں نکلی ہوگی ۔  نیز اس مناظر کی خدمت دین کا حال یہ ہے کہ آئے روز ان کی برکت سے ہمارے آس پاس کے علاقوں میں اہلحدیث ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے جھگڑے ہو رہے ہیں ۔ یہ جھگڑے گھروں میں بھی جاری ہیں  اور گاوں محلہ کی سطح پر بھی ۔
  ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ نام بڑا یا چھوٹا لکھنے سے بھلا کیا ہوتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ نام کا نہیں بلکہ اس سے واضح ہونے والے رجحان اور اہمیت کا ہے ۔ اشتہارات میں انہیں کا نام بڑا لکھا جاتا ہے جن کی قدر ومنزلت نگاہوں میں نمایاں ہو ۔ یہاں مجھے عوام الناس سے بھی ایک گلہ کر لینے دیجئے کہ ان کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرہ میں پنپتے ہیں اگر عوام ان کو سننے نہیں جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو کیا ایسے لوگ معاشرے میں آگے بڑھ سکیں گے ؟؟ اس کا جواب یقینا نہیں میں ہے تو پھر عوام الناس کو اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ تمام علماء پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا جائے ۔ یہ طرز عمل تو گمراہی تک لے جانے والا ہے البتہ جس طرح ہم بیماری کے علاج کے لئے اچھے ڈاکٹر اور تعلیم کے بہترین استاذ کھوجتے ہیں اسی طرح ہمیں حق شناس علماء بھی ڈھونڈنے چاہئے اور علماء کے بھیس میں تفرقہ ڈالنے والوں سے ہوشیار رہنا چاہئے ۔
 بہرحال اتنی بات واضح ہے کہ ہم قومی سطح پر ہی نہیں نجی سطح پر بھی سخت فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ غلامی ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائی جاتی ہے ۔ مذہب کے علاوہ جس میدان میں غلامی کی زنجیروں نے ہمارے قلوب و اذہان کو سب سے زیادہ جھکڑ کر رکھا ہے وہ سیاست کا میدان ہے لیکن کالم کا دامن محدود ہے اس لئے اس موضوع پر اگلی نشست میں بات کریں گے ان شاء اللہ ۔

Tuesday, March 14, 2017

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟


توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟

تحریر: محمد بلال فاروقی
کیا کبھی کسی مسلمان نے اس نکتے پر بھی غور کیا ہے ؟ کہ توہین رسالت ہوتی کیوں ہے؟ عرب کا وہ معاشرہ جو جہالت اور خون ریز لڑائیوں کے سبب زنگ آلود ہوچکا تھا اس معاشرہ میں امن و سکون و انسانیت کا پھریرا لہرانے والے میرے اور آپ کے عظیم نبی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے
 جن کے راستے مسدود کئے گئے، لیکن وہ رب کے بندوں کو رب کی طرف بلانے سے نہیں رکے، آقائے دوجہاں ﷺ  کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے تو آپ نے ان کانٹوں کو خود راستے ہٹا دیا کہ کسی اور کی تکلیف کا سبب نہ بنیں
آقائے دوجہاں ﷺ کو گالیاں دی گئیں آپ نے جواب میں دعائیں دیں، آپ ﷺ  کا شعب ابی طالب میں اپنوں نے بائیکاٹ کیا لیکن آپ نے فرمایا تین دن سے زیادہ کسی سے قطع تعلقی نہ کی جائے،
لیکن افسوس کہ جو رویہ چودہ سو سال قبل کفار مکہ کا امام الانبیاء ﷺ کے ساتھ تھا آج وہی رویہ مسلمانوں کا غیرمسلموں کے ساتھ ہے، ہم نے اپنے ملکوں اور ریاستوں میں مذہب کو اتنا تقسیم کردیا کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوگئے اور غیر مسلم جنہوں نے قرآنی اصولوں کے مطابق اپنے ممالک امن یافتہ بنائے ہمیں ان کا امن بھی ہضم نہیں ہوا ، اور اسلام  جو اپنے معانی میں سلامتی لئے ہوا تھا اسے اپنے جسم پر نافذ کرنے کی بجائے ہم نے اپنے جسموں پر آگ باندھی اور کود پڑے غیرمسلموں کے درمیان،
جہاد جو کہ قیام امن کے لئے کیا جاتا ہے، قوموں کو عروج دینے کے لئے کیا جاتا تھا، جس کا مقصد ذلت کی پستیوں سے حضرت انسان کو نکال کر کامیابی کی طرف لے جانا تھا اس جہاد کو ظلم بنا دیا گیا،
کیا اس وقت دنیا کا کوئی بھی مسلمان کوئی ایک مسلم عالمی رھنماء دکھا سکتا ہے کہ یہ ہمارا مسلم رھنماء ہے یہ اسلام کی عملی تصویر ہے ہم اس اسلام کی بات کرتے ہیں، یورپ نے اپنی اقوام کو لیڈر دئیے، رھنماء دئیے مغرب نے اپنی ریاستوں کو دیانت لیڈر دئیے مسلمان نے دیانت کا سبق یاد تو کیا اس بتایا نہیں گیا کہ عمل بھی کرنا ہے، ہمیں یہ تو پڑھایا گیا کہ راستے چلتے چڑھائی چڑھتے اللہ اکبر کہو نیچے اترتے سبحان اللہ کہو لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ راستے کشادہ کرو، راستے میں رکاوٹیں نہ آنے دو ، راستے میں ملنے والے کسی بھی انسان سے مسکرا کر ملو، ہمیں یہ تو سکھایا گیا کہ نماز پڑھو، لیکن یہ نہیں سکھایا گیا کہ پانچ وقت اپنی مسجد میں بلا کر اپنے سامنے کھڑا کردینے والا رب ہمیں بتا رہا ہے کہ انسانی مساوات زندگی کی سب سے اھم چیز ہے، ہمیں یہ تو بتا دیا گیا کہ کفار کے خلاف لڑنا فرض عین ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمارا نبی ﷺ تو راستے مسدود کرنے والے کفار کی بیماری پر بھی ان کی عیادت کے لئے جایا کرتا تھا،
ہمین یہ تو بتایا گیا کہ "کنتم خیر امت اخرجت للناس" کے تحت ہم سب سے افضل امت ہیں ہم بخشے بخشائے ہیں ہم اچھا کریں یا برا کریں ہمیں قیامت کے دن حوض کوثر ملے گا ہم عمل کریں یا نہ کریں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمارے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر دعائیں کی ہیں کوئی ٹینشن نہیں لیں،
مسلمانوں
میرا اور آپ کا نبی ﷺ جو سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر آیا اس کی رحمت کیا تھی ؟
مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام بطور مذہب اور دین کے کامیاب ترین مذہب و دین ہے لیکن مسلمان بطور مسلمان کی سب سے ناکام ترین امت بن چکی ہے، ہم نے اپنے آقا ﷺ کی زندگی ان کی سیرت مبارکہ کو اپنے اعمال کے نزدیک بھی پھٹکنے نہیں دیا، انہوں نے ہمیں جھوٹ سے منع کیا ہم نے جھوٹ بول کر کام کرنے کی قسم کھائی، آقا ﷺ نے ہمیں صلہ رحمی سکھائی ہم توڑنے پر عمل پیراء رہے، آقا ﷺ نے ہمیں غیرمسلموں کو اسلام کا فلسفہ امن سمجھا کر مسلمان بنانے کی تلقین کی ہم نے مسلمانوں پر بھی اسلام کے دروازے بند کئے،
ہم نے کیا کیا ہے اگر بطور پاکستانی مسلمان بھی دیکھا جائے تو ہم نے ہمیشہ "بند" ہی کیا ہے، ہم نے پڑوسیوں سے تعلقات "بند" کرکے "بارڈر بند" کئے، ہم نے کفر کے فتووں کے دروازے کھول کر اسلام میں داخلے کے دروازے بند کئے، ہمارے اذہان میں پیدائش سے یہ بات بھر دی گئی کہ ہم سب سے افضل ترین امت یا قوم ہیں، اس لئے اب ہم عمل کریں یا نہ کریں لیکن یہ فخر اور غرور ہم سے ٹوٹنا گوارہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب بھی توہین رسالت کا جرم ہوتا ہے تو "ضرب انانیت" پر لگتی ہے، "ضرب اس احساس تفاخر" پر لگتی ہے جس سے ہم دنیا کے ہر دوسرے مذہب کے ماننے والے کو اپنے سے کم تر و گھٹیا سمجھتے ہیں،
میرے بھائی آؤ سب کچھ بند کردو
بارڈر بند کردو
سوشل میڈیا بند کردو،
غیر مسلموں سے تعلقات بند کردو،
امن کی بات کرنے والوں سے صلح بند کردو ،
پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کی بات کرنے والے سے بات کرنا بند کردو،
ہم سب میں آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن صرف ایک کام اور بھی کرلو
مروجہ روایتوں کو توڑ کر اپنے نبی ﷺ کی نافرمانی کرنا بھی بند کردو،
یاد رکھو دنیا دور سے دیکھ کر کہے گی وہ دیکھو "مسلمان آرہا ہے محمد ﷺ کا غلام آرہا ہے"
پھر نہ تو گستاخی ہوگی نہ آپ کی انانیت پر آنچ آئے گی،

Monday, March 13, 2017

قوموں کا عروج وزوال


قوموں کا عروج وزوال 

رواداری کی رِیت اور ایام کی الٹ پھیر:
یہود ونصاریٰ اور بدھ مت کے پیروکاروں سمیت سارے مذاہب نے لوگوں کو رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان کرنے کی تلقین کی ہے۔ تاہم اسلام نے اس کی جو تعلیم فرمائی ہے وہ اپنی ذات میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے تعلیم ہی نہیں اپنے پیروکاروں کی عملی تربیت بھی فرمائی۔ ایسی تربیت جو دنیا کو امن وسکون اور آشتی کا گہوارہ بناگئی۔ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے دنیا میں جب اسلام کا ڈنکا بجایا تو پر امن زندگی کے ساتھ ساتھ قانون کی ایسی بالادستی عمل میں آئی جس سے روگردانی کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ ایک وہ دورتھا جب حق دار کو اس کا حق اسی صورت مل سکتا تھا جب اس کے پاس افرادی اور مادی قوت کی فراوانی ہوتی تھی۔ جو اس سے محروم تھا اسے اپنے حق سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔ عورت ذات کی کوئی حیثیت نہیں تھی نہ اس کو متمدن زندگی گزارنے کا کوئی اختیار حاصل تھا۔ اس کی حیثیت محض ایک رکھیل کی سی ہوتی تھی جس کو استعمال کرکے ویسے ہی چھوڑدیا جاتا ہے۔ اسلام نے جب اپنے ضوفشاں کرنیں انحائے عالم میں پھیلائے تو قوموں کو سکون آگیا۔ مظلوموں کی داد رسی ہوئی۔ ظالم کی تلوار نیام میں چلی گئی۔ عورت کو انصاف اور اپنے حق کے حصول میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ عدل کا بول بالا ہوگیا۔ دنیا ایک سنہرے دور میں داخل ہوگئی۔
دنیا کے اس کھلواڑ میں غالبیت کسی ایک قوم کو ہمیشہ کبھی حاصل نہیں رہی۔ اس میدان میں آج کسی ایک نے بازی جیتی تو کل کوئی اور آکر بازی اپنے نام کرگیا۔ ہار جیت اور غالب ومغلوب کا یہ کھیل جاری ہے اور جاری ہے گا۔ قوموں کی باہمی کشمکش اور عروج وزوال کی یہ رِیت اپنے آپ کو دہراتی رہے گی۔ قرآن کریم نے اسی بازی گری کا نقشہ نہایت احسن انداز سے کھینچا ہے:
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ [آل عمران: 140]
یہی دن ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے ہیں۔
یورپ کل اور آج:
مولانا ندوی صاحبؒ رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault) کے حوالے سے لکھتے ہیں:
            "پانچویں صدی سے لے کر دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔اور یہ تاریکی تدریجا گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی۔اس دور کی بربریت اور وحشت زمانہ قدیم کی وحشت سے کئی درجہ زیادہ بڑھی چڑھی تھی۔کیوں کہ اس کی مثال ایک بڑے تمدن کی لاش کی تھی جو سڑ گئی ہو۔اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے۔اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔وہ ممالک جہاں یہ تمدن برگ وبار لایا اور گزشتہ زمانے میں اپنی انتہائی ترقی کو پہنچ گیا تھا جیسے اٹلی وفرانس ،وہاں تباہی اور طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور دورہ تھا"
یورپ کی اس حالت کا نقشہ تو رابرٹ نے کھینچا اور اس کے زعم میں آج یورپ کچھ زیادہ متمدن اور بامہذب ہے۔ لیکن اگر بنظر غائر آج کے یورپ کا مطالعہ کیا جائے تو محض مادی ترقی کے علاوہ یورپ میں تہذیب کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہاں آج بھی ہر اس ناجائز کام کو قانونی سرپرستی حاصل ہے جو تہذیب کے دائرے سے ہٹ کر ہو۔ ہر اس فعل کو انہوں نے حرز جاں بنالیا ہے جس میں اخلاقیات کی حدیں بری طرح پامال ہوتی ہوں۔
روم کی کہانی:
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کے معاشی نظام اور بہترین طرز حکومت میں نہیں بلکہ ترقی کے میدان میں اخلاقیات کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ رابرٹ بریفالٹ نے رومی سلطنت کے زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے:
            رومی سلطنت کے زوال کا سبب وہاں بڑھتی ہوئی خرابیاں نہ تھیں،بلکہ اصل برائی اور خرابی فساد وشر اور حقائق سے گریز کرنے کی عادت تھی۔ جو اس سلطنت کے قیام میں روز اول سے ہی موجود تھی۔ کسی بھی انسانی ڈھانچے کی تعمیر جب اس طرح کے کمزور بنیادوں پر کی جائے گی تو اس کے گرنے سے صرف ذہانتیں اور منصوبہ بندیاں اسے نہیں بچا سکتی۔رومی سلطنت ایک چھوٹے سے طبقے کی راحت رسانی کے لیے عمل میں آئی تھی جس کے حصول کے لیے اس چھوٹے طبقے نے عوام کا ہر طرح سے استحصال کیا۔ روم میں تجارت کی ترقی اور اس میں نئی راہیں پیدا کرنے کا گر ضرور موجود تھا لیکن ان خوبیوں کی وجہ سے بنیادی طور پر کمزور معاشرے کو تباہی سے بچایا نہیں جاسکا۔(ص70)
چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لیے نظریاتی سرحدات کا مضبوط ہونا ازحد ضروری ہے۔ ورنہ اس معاشرے کو کوئی بھی طاقت زوال سے نہیں بچا سکتی۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ باطل میں سرے سے ابھرنے کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ اگر کبھی دیکھو کہ باطل ابھر رہا ہے تو سمجھو کہ ضرور اس نے کچھ خوبیاں اہل حق کی اپنائی ہیں۔ آج مغرب کی روزافزوں ترقی کو دیکھا جائے تو یہی بات برحق معلوم ہوتی ہے کیوں کہ وہاں کے سارے قوانین ان اصولوں پر مبنی ہیں جو دراصل اسلام کی دَین ہیں۔ لیکن چونکہ بے حیائی کے کلچر نے وہاں کے معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے اخلاقیات بری طرح زوال کی طرف گامزن ہیں۔
اسی طرح مولانا ندوی صاحب ڈاکٹر الفٹ بٹلر کے حوالے سےمصر میں قائم رومی حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں:
            مصر میں رومی حکومت کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ کسی طرح عوام کی دولت کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے حاصل کیا جائے۔مصر میں ان کومحکوموں کی معیار زندگی کی بلندی اور ان کی معاشی واخلاقی ترقی کا ذربرابر بھی خیال نہ تھا۔مصر میں رومیوں کی حکومت ان پردیسیوں کی سی تھی جو اپنے محکوموں کے ساتھ صرف جبر کا رویہ اپنانے کو روا رکھتے ہیں اور ان کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔(ص 71)
عالم اسلام نا اہل لیڈروں کے نرغے میں:
متعصب اور قوم پرست لیڈر جب اپنی قوم کو گرماتے ہیں تو ان میں ڈر اور نفرت پیدا کرتے ہیں۔وہ انہی دو چیزوں سے قوم کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔عصبیت اور قوم پرستی کی عفریت نے اسلامی دنیا کو اپنے پنجے میں اس طرح جکڑ کر رکھا ہے کہ اب اس سے نکلنابھی کارے دارد ہے۔ آج بھی بعض اسلامی ممالک میں برادر اسلامی ملکوں کے باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جبکہ وہی لوگ غیر اقوام کے سامنے بچھے جارہے ہوتے ہیں۔ اسلام نے عصبیت کی  کس قدر مذمت کی ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جاسکتا ہے:

اسلام نے عالم انسانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک خدا کے پیرو اوی حق کے حامی، دو شیطان کے پیروکار اور باطل کے حامی۔اسلام نے صرف شیطان کے پیروکاروں اور ظالموں، فسق وفجور اور سرکشی کرنے والوں سے نفرت کرنے اور ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ نفرت اور جنگ کے لیے اسلام نے باونڈری اور سرحدات وخطہ ہائے ارضی کو بنیاد نہیں بنایا بلکہ اس کی بنیاد عقائد واعمال اور انسانیت کے لیے نفع ومضرت پر ہے۔
امت مسلمہ کی قیادت کی ذمہ داریاں:
شیر شاہ سوری (م 952ھ) اپنے نظام الاوقات کا بڑا پابند تھا۔ اس کو پانچ برس کے لیے حکومت ملی لیکن اس زمانے میں اس نے بڑے بڑے کام کیے۔ نظام الاوقات کچھ یوں تھا کہ تہائی رات کی بیداری پر غسل کرتے اور اس کے بعد نوافل ادا کرتے۔ فجر سے پہلے اوراد ووظائف ختم کرتے۔ پھر امور سلطنت میں حسابات کی جانچ پڑتال کرتے اور افسروں کو ضروری ہدایات دیتے۔ فجر کی نماز کو باجماعت اداکرنے کے بعد مسنون اذکار کا اہتمام ہوتا۔ اتنے میں ارکان سلطنت حاضر ہوجاتے اور دن کے باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوتا۔ دربار میں لوگ حاضر ہوتے ان کی ضروریات پوری کرتے اور انعام واکرام وخلعت سے نوازتے ۔اس کے بعد کچہری لگا کر لوگوں کی شکایتیں سنتے اور دادخواہوں کی دادرسی اور حاجت برآری کرتے۔ پھر فوج کے لیے قابل اور محنتی امیدواروں کا انتخاب کرتے۔ اس کے بعد ملکی آمدنی اور  مالیات کے شعبے کا معائنہ کرتے۔اس طرح کے دیگر امور سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز،کھانا اور قیلولہ کرتے۔ قیلولے کے بعد پھر امور سلطنت میں مشغول ہوجاتے۔ یہ نظم الاوقات سفروحضر میں اسی طرح ہوتا تھا۔ کہتے کہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا پورا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔
ایک اسلامی سلطنت کے سربراہ کے لیے اپنے  نظام الاوقات کو صحیح رخ پر بنانے اور پھر اس کی پابندی نہایت ضروری ہے ورنہ قوم کی خدمت اور معاشرے کے اصلاح کے لیے جو سنہرا موقع سربراہ کے پاس ہوتا ہے اس کی ضیاع کا اندیشہ ہوتا ہے اور ایک بار یہ موقع ہاتھ سے جانے کے بعد کبھی بھی دوبارہ اس کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
قیادت کا زمام مغرب کے ہاتھ میں جانے پر کیا نقصان ہوا؟
اسلام نے انسانی معاشرے کو بام عروج تک پہنچایا۔ تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاق وروحانیت نے بھی یکساں فروغ پایا۔ جاہلیت کے ڈسے ہوئے معاشرے کو علم کا تریاق دے کر اسے لذت زیست اور مقصد زیست سے آشنا کیا۔ اخلاق وتربیت کے شجر پر ظلم کی جو کلہاڑی چل رہی تھی، اسلام نے اس شجر کے گرد انصاف کا حصار بناکر محفوظ بنادیا۔ دنیا جو شتر بے مہار کی طرح اندھے گڑھے کی طرف دوڑی جارہی تھی، اسلام نے اسے صحیح رخ دے کر حقیقی منزل تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔
لیکن اچانک ایک خوفناک تبدیلی نے سارا کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ قیادت کی تبدیلی نے پچھلی پالیسی کو کالعدم قرار دے کر من چاہی روش اختیار کی۔ وحی کی روشنی کو چھوڑ کر عقل وخواہش کو راست کا مشعل سمجھ کر اس کی پوجا پاٹ شروع کی گئی۔ قوت اور بڑائی کے نشے میں چور مغربی قیادت نے صحیح وسقم کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کو چلانا شروع کیا۔ نتیجتا بے انصافی، جارحانہ قوم پرستی، غیر محدود شخصی آزادی اور غیر فطری اعمال پروان چڑھنے لگے۔ مغربی معاشرے کو تو خراب ہونا ہی تھا اس سیلاب نے بالعموم پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرقی علوم کو استعمال میں لاکر مادی ترقی تو اپنائی گئی لیکن اس کے ساتھ ہٹ دھرمی، تعصب اور حق سے آنکھیں چرانے کی وجہ سے انہوں نے دنیا کو دہکتی ہوئی آنکھ کا انگارہ بنادیا۔
دین الٰہی کا علمبردار اور دنیا کا محتسب:
رسول اللہ ﷺ نے میدان بدر میں فرمایا تھا:
اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض
[السنن الكبرى للإمام النسائي 9/ 14] ۔۔۔۔ اے اللہ! اگر تو اس جماعت کو ہلاک کردے گا تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے سارے نقائص کے باوجود یہ حقیقت اب بھی اس طرح باقی ہے۔ جاہلیت دنیا کے لیے جو نقشہ رکھتی ہے اور جس نقشہ پر وہ آج دنیا کو چلارہی ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی نقشہ ہے تو صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ اگر چہ مسلمان خود اس کو بھولے ہوئے ہیں لیکن یہ نقشہ ابھی ضائع نہیں ہوا اور نہ کبھی ضائع ہوسکتا ہے۔ مسلمان اپنے دین کی رو سے دنیا کے محتسب اور خدائی فوج دارہیں۔ جسدن وہ بیدار ہوں گے وہ اپنا فرض منصبی انجام دیں گےاور وہ مشرق ومغرب کی قوموں کے لیے روز حساب ہوگا۔ انہیں کی خاکستر میں وہچنگاری دبی ہوئی ہے جو کسی نہ  کسی دن بھڑک کر جاہلیت کے خرمن کو جلا کر خاک کردے گی۔
علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو نظام جاہلی کے علمبردار وصدر نشین ابلیس کی زبان سے ادا کروایا ہے۔ 1936ء کی مجلس شوریٰ میں شیاطین عالم نے جمع ہوکر ان خطرات کو پیش کیا جو ابلیسی نظام کے لیے سخت تشویش اورپریشانی کا باعث ہے اور جن کی طرف جلد متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک مشیر نے جمہوریت کا نام لیا اور اس کو "جہانِ نو کا تازہ فتنہ" بتلایا۔ دوسرے نے اشتراکیت سے سخت خطرہ ظاہر کیا اور ابلیس کو مخاطب کرکے کہا:
فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج                  کانپتے ہیں کوہسار ومرغزار وجوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیروزبر ہونے کو ہے           جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
چنانچہ اپنے چیلے کی پوری بات سننے کے بعد ابلیس نے اس کو مشورہ دیا کہ باقی نظریات تو پانی کے بلبلے ہیں جو ایک دن ختم ہوجائیں گے لیکن اسلام کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو عالم میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔
اسلام کے عروج کا طویل سنہرا دور:
اسلام کی ضیا پاش روشنی کی بدولت دنیا کو حقیقی طورپر نشان منزل نظر آگیا۔ مادی ترقی کو ثانوی حیثیت دے کر روحانی درجات کا حصول اولین مقصدقرار دیا گیا۔ انفرادی نفع کی بجائے اجتماعی مفاد کی خاطر قربانی دینے کی رِیت ڈالی گئی۔ غیر اخلاقی اور عقلی ودینی طور پر نامناسب رسوم ورواجوں کا خاتمہ کیا گیا۔ انسان میں دوسرے انسانوں کا احترام اور ان کی اہمیت کی سوچ دال دی گئی۔ حکومت اور سیاست کا بہترین انداز اپنایا گیا۔ امن وامان کو مادی اور روحانی ترقی کے لیے شیئ اول قرار دے کر اس کو ممکن بنانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان سب قوانین اور اصول کو عملی طور اپنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا نے ایک طویل دور تک اسلام کے سایہ عاطفت میں رہ کر امن اور ترقی کی زندگی گزاری۔
مسلمانوں کے پاس قانون الہی تھا جس کی بدولت وہ آگے بڑھنے میں کوئی ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کو روز روز اپنے قوانین میں ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ حق اور انصاف کے علمبردار  بنائے گئے تھے۔ ان کو اشتعال اور برہمی میں بھی انصاف اور صداقت کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور اور نفس کا انتقام لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔انہیں قرآن کریم نے تاکید کی کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [المائدة: 8]
"اے مومنو! انصاف کے ساتھ گواہی دینے پر آمادہ رہو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہیں چھوڑو۔ عدل کرو، یہی بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو"
مسلمانوں کے حکمران یا خلیفہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ ذامہ داریوں میں غفلت کوکسی بھی صورت گوارا نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس منصب سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ ان کو منصب دیا جاتا تھا لیکن وہ قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں انسانوں کا معاشرتی اور تہذیبی ترقی:
اسلام نے انصاف اور رواداری کو فروغ دیا۔ انسان کو اس کی زندگی کا مقصد بتا دیا۔ معاشرہ کو پستی سے نکال کر ترقی کے راہ پر گامزن کیا۔ غیر اخلاقی افعال واعمال کا قلع قمع کرکے ایک نئے انداز سے معاشرے کو روشناس کرایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير} [الحجرات: 13]
اے لوگو! ہم  نے تمہیں ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔بے شک اللہ کے نزدیک تم  میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا،ہر چیز سے باخبر ہے۔
اسی مضمون کو حضورﷺ نے اپنے زبان مبارک سے بھی بیان فرمایا ہے:
يا أيها الناس أن ربكم واحد و إن أباكم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي و لا لعجمي على عربي و لا لأحمر على أسود و لا أسود على أحمر إلا بالتقوى إن أكرمكم عند الله أتقاكم[شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي 4/ 289]
اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے۔ اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں ہے اورنہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی گورے کوکالے پراور نہ کسی کالے کو گورے پر ، مگر تقوی کے لحاظ سے ۔ بے شک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
یہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کو یکسانیت کا درس دے دیا ہے۔ خواہ مخوا کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت جتانے کا کوئی حق نہیں الا یہ کہ وہ تقوی اور پرہیزگاری کے اعتبار سے سب سے اونچاہو۔
آج دنیا کو اس سچے دین کی سخت ضرورت ہے جو بے چینی کی فضا کو امن وآشتی میں بدل سکتا ہے۔ جو بے یقینی کی جگہ سکون وراحت کی ضمانت دیتا ہے۔ اور بلاشبہہ وہ دین صرف اسلام ہی ہے۔

Sunday, March 12, 2017

ملکہ سوات


ملکہ سوات

روشن خان لکھتے ہیں:
جب یوسفزئی کی آبادی مورا نامی پہاڑ تک پہنچ گئی تو سوات کے بادشاہ سلطان اویس کو یہ بات ناگوار گزری۔ اسے یوسفزئی قوم سے خطرہ لاحق ہوا کہ ہونہ ہو یہ سوات پر قبضہ جمانے کی خاطر ایک دن پیش قدمی بھی کرلیں گے۔ اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یوسفزیوں کا اتنا قریب آجانا کوئی اچھا نہیں ہے۔یہ سوات کے زوال کا پیش خیمہ ہے۔ اس امر کی فکر کی جانی چاہئے کہ کس طرح ان کے سوات پر قبضے کے خیال کو ختم کیا جائے۔ امیروں نے ایک عجیب مشورہ دیا جوکہ سنگدلی اور بے وقوفی کا ایک بدترین امتزاج ہے۔ کہا کہ آپ اپنی بیوی کو جو ملک احمد کی ہمشیرہ ہے قتل کردیں تاکہ یوسفزئی کی آمدورفت یہاں سے منقطع ہوجائے۔ اور ان تک ہمارے حالات کی خبریں نہ پہنچ سکیں۔ سلطان اویس نے اپنے درباریوں کے مشورے پر اپنی بیوی کو نہایت دردناک طریقے سے چھریاں مار کر ہلاک کردیا اور منگلور میں دفنا دیا۔
’’ملکہ سوات ‘‘کے نام سے مشہور یوسفزیوں کے سردار ملک احمد کی بہن ایک پاکباز اور نیک خاتون تھیں۔ جب یوسفزیوں کو اس بہیمانہ قتل کی خبر پہنچی تو ان کا خون کھول اٹھا۔ برادری کے لوگوں نے ملک احمد کو مشورہ دیا کہ سلطان اویس کو اس ظلم کی سزا دینی چاہئے۔ لیکن ملک احمد ایک زیرک سردار تھا۔ اس نے صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے بطور تعزیت رسم کے مطابق سوگائے بیل سلطان کے پاس بھیجے اور کہلا بھیجا کہ یہ حکم الٰہی تھا جس سے کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر آپ کو ہم سے ناطہ پسند ہو تو دوسرا رشتہ بھی حاضر ہے۔ اس کے بعد سلطان کی اجازت سے ملک احمد نے بیس آدمیوں کے وفد کے ساتھ سوات آکر ہمشیرہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور سلطان سے تعزیت کی۔ سلطان جی میں خوش ہورہا ہوگا کہ چلو یوسفزیوں کو سبق مل چکا ہے اب انہیں سوات پر قبضے کا خیال نہیں ستائے گا۔ تاہم یہ اس کی بھول تھی اور ایک دن وہ سوات کو اپنے ہاتھوں سے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
ملکہ سوات کی یہ کہانی اور یوسفزیوں کا سوات پر قبضے کی داستان تفصیل کا متقاضی ہے۔ یہاں اس واقعے کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قدرت نے دنیا میں بھی مکافات عمل کا سامان رکھا ہے۔ کوئی اگر ظلم کرے تو اسے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک دن اسے اپنے کیے کی سزا دنیا میں بھگتنی پڑے گی اور آخرت میں اللہ تعالی کے حضور وہ رسوا ہوگا۔بالخصوص ایک ناتواں ذات اور معاشرے کے کمزور صنف پر روا رکھا جانے والا ظلم قدرت نے کبھی نہیں بخشا ہے۔ قدرت نے مظلوم کی داد رسی اور ظالم کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا ہے۔
سوات میں ایک ملکہ نہیں کہ اس پر یہ ظلم کیا گیا۔ یہاں چاروں طرف پردہ دار اور عفت مآب ملکائیں معاشرتی ظلم کی چکیوں میں پس رہی ہیں۔بہنوں اور بیٹیوں کو میراث سے محروم رکھنا یہاں کا عام رواج ہے۔ بہن یا بیٹی کو خدا تعالیٰ نے ایک حق عطا کیا ہے لیکن ایک بھائی ساری زندگی اس پہ سانپ بن کر اسے کھاتا رہتا ہے۔ کسی دن اگر وہی بہن اس بھائی کے منہ لگے اور کچھ مانگے تو صلواتیں سننی پڑتی ہیں کہ یہ کیا میرے ہاتھوں کی کمائی کو مجھ سے چھینتی ہو؟ اگر وہ ڈرتے ڈرتے پوچھے کہ جس باپ کا تو بیٹا ہے اس نے مجھے بھی تو پیدا کیا تھا، سو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں میرا بھی تو کچھ بنتا ہے تو بھائی کا غصہ آسمان کو چھونا شروع کرتا ہے۔ عجیب عجیب واقعات سننے میں آرہے ہیں ۔ دھوکے فریب اور بچوں کی سی لے دے کے ذریعے بہنوں کا حق دبانا ہمارے غیرت مند مردوں کا وطیرہ ہے۔ ایک جاننے والے کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے عدالت میں جائیداد کے کاغذات بنوا کر ساری جائیداد بیٹوں کے نام کرکے بیٹیوں کو اس سے محروم کردیا۔ گو ازروئے شرع باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی کمائی کسی کو دے کسی کو نہ دے لیکن یہ بھی تو کہا گیا ہے کہ اولاد کو فاقہ زدہ نہیں چھوڑنا چاہئے۔ نیز ان کے ہاتھ پیر باندھ کر معاشرتی ظلم کے سامنے نہیں ڈالنا چاہئے۔
لمحہ موجود میں سیکڑوں کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن میں بہنوں نے بھائیوں پر جائیداد کے مقدمات دائر کردیے ہیں۔ میراث کی تقسیم میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو ایسی نوبت نہیں آئے گی۔ قرآن نے صاف الفاظ میں عورت کا حصہ متعین کیا ہے۔ میراث میں ایک عورت کو مرد کا نصف ملنا چاہئے۔ خواتین کو معاشرے میں عزت کا مقام عطا کرنا چاہئے۔ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے انہیں مکمل تفریح کی اجازت دینی چاہئے۔ ان کے پسند ناپسند کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کو ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر تم محروم رکھوگے تو ایک دن ان میں بیداری آجائے گی اور قانونی طریقے سے اپنا حق مانگے گی۔ پھر تم روؤگے چلاؤگے کہ بہن مجھ سے میرا رزق چھین رہی ہے۔ جبکہ تم اب تک اسی کے حق کو کھارہے ہوتے تھے۔ اب جب وہ اپنا حصہ مانگ رہی ہے تو تمہیں تکلیف ہورہی ہے۔ جج صاحبان کی خدمت میں گزارش ہے کہ ان کیسز کو ہنگامی بنیادوں پر جلد از جلد نمٹائیں۔ ان کیسز کو دیگر کیسز کی طرح سالوں کی طوالت کا شکار نہ ہونے دیں ورنہ یہ مظلوم بہنیں جو اب تک خاموش بیٹھ کر بھائیوں کو اپنا حصہ کھاتے دیکھ رہی تھیں، مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتیں!
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟؟

Saturday, March 11, 2017

The Lion King


دی لائن کنگ

تحریر: عظیم الرحمن عثمانی
میں کارٹون موویز آج بھی اتنے انہماک سے دیکھتا ہوں کہ ادرگرد کی کوئی خبر نہیں ہوتی. میرا احساس ہے کہ ان کارٹون موویز میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ عام موویز یا ڈراموں سے کہیں زیادہ مثبت پیغامات چھپے ہوتے ہیں. 'دی لائن کنگ' ان کارٹون موویز میں میری پسندیدہ رہی ہے. کل یوٹیوب پر سالوں بعد اسے دوبارہ دیکھا تو لطف ہی آگیا. بہت ممکن ہے کہ آپ میں سے کئی دوست میری اس تحریر پر ہنسیں مگر کوئی بات نہیں ہنسنا صحت کیلئے برا نہیں ہے. کہانی کا آغاز 'موفاسہ' نامی ایک ببر شیر کی بادشاہت کے بیان سے ہوتا ہے. دیکھاتے ہیں کہ موفاسہ کے گھر بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام 'سمبا' رکھا جاتا ہے. ایک 'رافیکی' نام کا کاہن نما شاہی لنگور اسے گود میں اٹھا کر پورے جنگل کو دیکھاتا ہے اور سب جانور ادب سے سر جھکا لیتے ہیں. یہ اس بات کا اعلان تھا کہ 'سمبا' مستقبل کا بادشاہ بنے گا. 'موفاسہ' ایک نہایت طاقتور، حکیم اور انصاف پسند بادشاہ ہے. جو اپنے بیٹے 'سمبا' کی مختلف انداز سے تربیت کرتا ہے. ایک موقع پر وہ اسے جانوروں سے محبت اور انصاف کی تلقین کرتا ہے تو سمبا پوچھتا ہے کہ "..لیکن ہم تو انہیں شکار کرکے کھا جاتے ہیں؟". 'موفاسہ' سمجھاتا ہے کہ بیٹا آج تم ان چوپایوں کو کھا جاتے ہو، کل جب ہم شیر مر جائیں گے تو ہمارے جسم مٹی ہو کر گھاس اور چارہ بن جائیں گے، جنہیں یہ چوپائے کھائیں گے. یہی 'زندگی کا دائرہ' ہے جس کا احترام لازم ہے. اسی طرح 'موفاسہ' اپنے لاڈلے 'سمبا' کو غیر ضروری خطرات مولتے دیکھ کر سمجھاتا ہے کہ بہادر ہونے کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ تم زبردستی خود کو خطرات میں ڈال لو۔ صرف اسی وقت بہادر بنو جب بہادری کی ضرورت پڑ جائے۔ 'موفاسہ' کا ایک حسد کرنے والا بھائی بھی ہے، جس کا نام 'اسکار' ہے اور جو اپنی شاطر و خبیث فطرت کی وجہ سے خونخوار لکڑبھگوں میں رہنا پسند کرتا ہے. اسکار چونکہ سمبا کا چچا ہے لہٰذا وہ 'سمبا' کو ہلاک کرنے کی سازش کرتا ہے مگر 'موفاسہ' عین وقت پر پہنچ کر اپنے بیٹے کو بچا لیتا ہے. 'اسکار' ایک بار پھر لکڑبھگوں کیساتھ مل کر بڑی سازش کرتا ہے اور 'موفاسہ' کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے. چھوٹے سے 'سمبا' کو وہ یہ تاثر دیتا ہے کہ اس کا باپ 'موفاسہ' اسکی وجہ سے حادثاتی موت مرگیا ہے. وہ 'سمبا' کو بھاگ جانے کا مشورہ دیتا ہے اور اسکے جاتے ہی اسکے پیچھے لکڑبھگوں کو اسے ہلاک کرنے کیلئے بھیج دیتا ہے. یہ لکڑبھگے اسے ہلاک نہیں کر پاتے اور 'سمبا' بچ نکلتا ہے.
.
'
سمبا' احساس جرم دل میں لئے دوسرے جنگل جاکر کچھ نئے دوست بناتا ہے جو اسے 'اکونو مٹاٹا' کا ایک نیا فلسفہ سکھاتے ہیں. جس کے مطابق بے حس ہو کر بناء کسی ٹینشن کے زندگی گزارنی چاہیئے. شکار کی بھی فکر نہ کرو، بلکہ بکھرے ہوئے کیڑے مکوڑے کھالو. 'سمبا' ان ہی کے ساتھ پل بڑھ کر جوان ہوجاتا ہے اور پھر ایک روز اچانک اسکی ملاقات اپنی بچپن کی منگیتر 'نالا' سے ہوجاتی ہے. وہ بتاتی ہے کہ سب کو یہی بتایا گیا ہے کہ تم مر چکے ہو. 'اسکار' نے لکڑبھگوں کیساتھ مل کر بادشاہت سنمبھال رکھی ہے. بربریت سے تمام جنگل تباہ ہوچکا ہے. 'نالا' اسے واپس جا کر اپنا تخت چھیننے کیلئے ابھارتی ہے، جواب میں 'سمبا' انکار کرکے اسے بھی 'اکونو مٹاٹا' کی تھیوری سمجھاتا ہے. 'نالا' غصہ کرکے کہتی ہے کہ بے فکری کا نام لے کر تم اپنی ذمہ داری اور حقیقت سے فرار حاصل نہیں کرسکتے. 'سمبا' تنہائی میں جاکر سوچنے لگتا ہے تو وہاں وہی شاہی کاہن لنگور 'رافیکی' آجاتا ہے جو اس سے اپنے ملنگ انداز میں پرمغز گفتگو کرتا ہے. 'سمبا' کہتا ہے کہ ماضی نے اسے جکڑ رکھا ہے. جواب میں لنگور اس کے سر پر اپنی لاٹھی سے ضرب لگاتا ہے. 'سمبا' تکلیف سے پوچھتا ہے کہ کیوں مارا؟ لنگور کہتا ہے فکر نہ کرو وہ ماضی تھا. 'سمبا' شکایت کرتا ہے مگر یہ تکلیف دہ تھا. اب لنگور اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہتا ہے کہ ہاں ماضی تکلیف دہ ہوسکتا ہے مگر تم دو رویئے اپنا سکتے ہو. یا تو ماضی سے بھاگتے رہو یا پھر ماضی سے سبق حاصل کرو. یہ جملہ کہتے ہی لنگور دوبارہ ضرب لگانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس بار 'سمبا' سر جھکا کر خود کو بچا لیتا ہے. گویا 'سمبا' نے ماضی یعنی پہلی ضرب سے سیکھ کر دوسری ضرب سے خود کو بچالیا تھا. اسی دوران اس ملنگ لنگور کے ذریعے 'سمبا' پر کشف کی کیفیت طاری ہوتی ہے جس میں اسے اپنا باپ 'موفاسہ' یہ شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ 'سمبا' تم نے مجھے بھلا دیا. 'سمبا' چیختا ہے کہ نہیں میں آپ کو کیسے بھلا سکتا ہوں بابا؟ 'موفاسہ' جواب دیتا ہے کہ تم نے اپنی حقیقت بھلا دی یعنی مجھے بھلادیا. اس کشف کے بعد 'سمبا' واپس اپنے آبائی جنگل جاتا ہے اور 'اسکار' سے اسکا خونی معرکہ ہوتا ہے. جس کے دوران 'اسکار' یہ اعتراف بھی کرلیتا ہے کہ 'موفاسہ' کا قاتل وہی ہے. 'اسکار' کا انجام دردناک ہوتا ہے کہ اس کے ساتھی سینکڑوں لکڑبھگے اس کی مطلب پرستی سے ناراض ہوکر اس پر حملہ کردیتے ہیں اور اسے کھا جاتے ہیں. 'سمبا' اپنے باپ کا تخت بلاخر سنبھال لیتا ہے اور ایک بار پھر جنگل میں خوشحالی اور انصاف لوٹ آتا ہے. مووی کا اختتام اس پر ہوتا ہے کہ 'سمبا' اور 'نالا' کے گھر بیٹی/بیٹا پیدا ہوا ہے. جسے وہی ملنگ شاہی لنگور 'رافیکی' گود میں اٹھا کر سارے جنگل کو دیکھاتا ہے اور سب جانور احترام سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں
.
====
عظیم نامہ====

Friday, March 10, 2017

تاتاریوں کے حملے اور سلطنت خوارزم کے حکمران

تاتاری یورش اور خوارزم کے حکمران


تاتاریون کے عروج اور خوارزمی سلطنت کا زوال کوئی قدرتی امر نہیں تھا بلکہ اندلس کے شاہ عبداللہ کی طرح یہاں بھی سلاطین خوارزم اور ارباب حل وعقد اس عبرتناک شکست کے ذمہ دار تھے۔ خوارزمی سلطنت عالم اسلا م کا واحد دفاعی حصار سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب ماوراء النہر کے علاقے بھی یکے بعد دیگرے تاتاری یورش کا شکار ہونے لگے تو امت مسلمہ میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ سیانے لوگ سمجھ گئے کہ اب اسلامی سلطنت کا زوال ہونے والا ہے۔ جن لوگوں پہ یہ یقین کیا جاسکتا تھا کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی اسلام اور مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا، آج انہی کے ہوتے ہوئے مسلمان لٹ رہے ہیں، برباد ہورہے ہیں۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
صاحب کتاب "المغول (التتار) بین الانتشار والانکسار" لکھتے ہیں کہ خوارزمی سلطنت کے زوال کے اسباب منجملہ یہ تھے:
1۔اہل خوارزم نے جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی تیاری پس پشت ڈال دیا تھا۔
2۔قبائل حکومت کے انتظام وانصرام اور طریقہ حاکمیت سے مطمئن نہیں تھے۔
3۔خوارزمی خاندان میں اندرونی اختلافات تھے جو کہ ریاست کی بقا کے لیے زہر قاتل سمجھے جاتے ہیں۔
4۔خوارزمی سلطنت کا فوجی دفاعی نظام اطمینان بخش نہیں تھا۔ فوجی طور پر یہ سلطنت کمزور تھی۔
5۔دنیا کی محبت اور موت کی ڈر ان کے نس نس میں سما گیا تھا۔ عیش پسندی نے ان کی عادات بگاڑ دیے تھے۔
6۔اتحاد واتفاق کو چھوڑ کر خوارزمی حکمران ظلم وسرکشی پر اتر آئے تھے۔
7۔محمد علاء الدین خوارزمی ایک اناپرست شخص تھا جو اپنے سوا کسی اور کو اہمیت دینا گوارا نہیں کرتا تھا۔
8۔علماء وصلحاء کو دربار سے رخصت کردیا گیا تھا۔ ان کی بات نہیں سنی جاتی تھی۔ اصلاح احوال کے لیے ان کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا تھا۔
یہ سارے اسباب خوارزمی سلطنت کے زوال کا باعث بنے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ صرف خوارزم کا زوال نہیں تھا بلکہ امت مسلمہ پر ایک کڑا اور سخت ترین دور تھا۔ چند ایک عیش پرستوں کی نااہلی اور سستی کی سزا پوری امت کو بھگتنی پڑ رہی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امت نے بھی حکمرانوں کے ڈر کی وجہ سے آنکھیں بند رکھی تھیں۔ اور یا اس وجہ سے کہ چلو ہمرا تو روزگار چل رہا ہے، حکمران جانیں اور ان کا ملک۔۔!
تاریخ کہتی ہے کہ ایسا رویہ رکھنے والوں کو دنیا پر جینے کا حق ہر گز نہیں ہے جو صرف اپنا سوچتے ہیں۔۔چاہے وہ ارباب اقتدار ہوں یا عام آدمی۔۔۔اپنا فائدہ دیکھنے والوں کو ایک دن قوم کے ساتھ پیس دیا جاتا ہے۔۔۔!!

پتھر دور کے آثار

سکندر اعظم اپنے فوجی لشکر کے ساتھ ہندوستان پر حملے کے لیے ان راستوں سے گزرا۔ اس کے فوجیوں نے یہاں ڈیرے ڈالے۔ یہ تصویر اس دور کے راک پینٹنگ کی ہے۔ اس دور میں لوگوں نے ان پتھروں پر کچھ شکلیں بنائیں۔ ان میں جانوروں اور انسانوں کی اشکال ہیں۔ ایک خاص پتھر کے ذریعے یہ پینٹنگ کی گئی ہے۔ بڑے سائز کے اس پتھر کو اس طرح سے ایستادہ کیا گیا ہے کہ پینٹنگز بارش اور دھوپ کے اثرات سے محفوظ رہے۔ یقینا سوات کی سرزمین پر یہ ایک پرانی یادگار ہے۔ یہ مقام بلوکلے بریکوٹ سے آگے سرگاسر نامی جگہ میں ہے۔ جہاں تک پیدل تین گھنٹوں میں بآسانی جایا جاسکتا ہے۔

کتابِ زندگی

علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:
’’دنیا کی قسم قسم مخلوقات کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ جمادات سے لے کر انسان تک اس میں احساس، ادراک اور ارادے کامادہ بتدریج ترقی کرتا نظر آتا ہے۔ جمادات کی بالکل ابتدائی قسم یعنی ’’ایٹم‘‘ احساس ادراک اور ارادے سے بلکلیہ خالی ہے۔ جمادات کی اور اقسام میں ایک طرح زندگی کا ہلکا سا نشان ملتا ہے۔ نباتات میں احساس کی غیر ارادی کیفیت نشونما پانے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ حیوانات میں احساس کے ساتھ ارادے کی حرکت بھی ہے۔ جبکہ انسان میں احساس،ادراک اور ارادہ پورے کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ یہی احساس، ادراک اور ارادہ ہماری ذمہ داریوں کا اصلی سبب ہے۔ مخلوق کی کس صنف میں جس حد تک یہ چیزیں کم ہیں اسی قدر ان کی ذمہ داریاں بھی کم ہیں۔ اسی بنا پر جمادات ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہیں۔ نباتات میں زندگی اور موت کے کچھ مجبوریاں یا فرائض پیدا ہوجاتے ہیں۔ حیوانات میں کچھ اور فرائض بڑھ جاتے ہیں۔ اور انسان تو فرائض کی جال میں جکڑا ہوا ہے۔ پھر انسانوں میں بھی عمر اور عقل کی تفاوت کے ساتھ ذمہ داریوں کی کمی بیشی پائی جاتی ہے۔‘‘
سید صاحب کی ان باتوں میں غور کرتے ہوئے اگر ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں احساس، ادراک اور ارادے کی کیفیات کا عجیب سا حال نظر آئے گا۔یہ حال اور جال جس میں ہم پھنس کر رہ گئے ہیں ہم سے کچھ تقاضے کررہا ہے۔ ہمیں ذمہ داریوں کا احساس دلا رہا ہے کہ اس دنیا میں محض سیر وتفریح کے واسطے انسان کو نہیں بھیجا گیا۔ ذاتی منافع کی تحریک اور اپنے من کے خول میں بند ہوکر رہ جانا کسی طور بھی انسانیت کا معراج نہیں۔ نہ اس سے انسان کو حقیقی انسانیت کا ثمرہ مل سکتا ہے۔ زندگی کے تقاضے کسی کھیل کود کے اصول نہیں بلکہ مالک حقیقی کی طرف سے کیے گئے وہ فیصلے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ذی شعور کا خاصہ اور اس کی اہم ذمہ داری ہے۔ خدائی احکام کی بجا آوری کی وجہ سے انسان حقیقی انسانیت کے فریم میں کھٹاک سے فٹ ہوسکتا ہے۔ ورنہ قیامت کے دن یہی انسان اپنی کوتاہیوں کے احساس سے دب کر اپنے خول میں چھپنے کی ناکام کوشش کرے گا۔اور اس وقت ہر عذر عذرِ لنگ ثابت ہوگا۔ 
1987ء میں ٹوکیو جاپان میں ایک کتاب چھپ گئی جس میں جاپانی اقوام کے مزاج کا تعارف ہے۔ Chie Nakaneنامی اس خاتون نے اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ جاپانیوں کا ذہن (Mental mak-up) کیا ہے۔ خاتون مصنفہ کے طویل کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ جاپانی انسان کی ذہنی ساخت کو مختصر طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ:’’جاپانی اس بات کی مسلسل خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اوسط سے اوپر کی طرف اٹھ سکیں‘‘The constant desire to rise a little higher than the average.۔ جاپانیوں نے اپنے اس اصول کو مذہبی اقدار کی طرح اپنایا۔ انہوں نے جان رکھا ہے کہ زندگی میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ آدمی یا تو اوپر کی طرف اٹھے گا یا نیچے گرے گا۔ یہ قطعی اصول دین ودنیا میں یکساں طور پر درست ہے۔ اگر کوئی مؤمن اپنے ایمان میں اضافے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرے گا تو وہ ایمانی تنزل کی طرف اپنا سفر شروع کرے گا اور تنزل کی طرف آنے کے لیے مزید کسی کوشش اور محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ارتقا کا عمل اس دنیا کا خاصہ ہے۔ یہاں ٹھہراؤ نہیں ایک مسلسل سفر ہے اور اس سفر میں جیت اس کی ہوتی ہے جو اسپ تازی اور تند جولانی کا مالک ہو۔ جس کے پاس حوصلہ ہو اور کچھ کرگزرنے کا پکا دھن ہو۔ بے فکری کے خوابوں اور دوسروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ماضی کی شخصیات کے تعاقب میں کہیں اپنے حال سے بھی ہاتھ نہ دھونے پڑیں ؂

میرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

احساس ذمہ داری ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں آدمی کسی کام کے کرنے اور اسے بروقت سرانجام دینے کی فکر کرتا ہے۔ انسان پر کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دھن سوار رہتا ہے اور اسے مکمل کیے بنا چین نہیں آتا۔ یہ دولت ان لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے جنہیں وقت کی قدروقیمت معلوم ہو۔ وقت کے صحیح استعمال کا گُر جانتے ہوں۔ وقت جیسی دو دھاری تلوار کو مثبت مقاصد کے لیے ہی بے نیام کرتا ہو۔ اسے سینت سینت کر، چھپا چھپا کر رکھتا ہو اور اسے ضیاع سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہو۔ زندگی کو غور سے دیکھا جائے تو یہ مصروف بھی ہے، بے حد منصف بھی اور بے انتہا ظالم بھی۔ اسے مصروف رکھیں گے تو اس سے انصاف ملے گا۔ اس کو بے کار ضائع کریں گے تو بعید نہیں کہ یہ تمہیں بھی کاہے کا نہ چھوڑے۔ ہاں اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ حقیقت پسند ہے۔ زندگی میں خواب بُننے اور پھر انہی خوابوں کے سہارے زیست کو بِتانے کا رویہ غیر دانشمندانہ ہے جس کا خمیازہ ہر آنے والے قدم پر بھگتنا پڑتا ہے۔ خواب دیکھنا کوئی بری بات بھی تو نہیں تاہم خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے والے مردانِ کار کم کم ہی ہوتے ہیں۔ صادق وامین ذات کے منہ مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ کتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ:صحت اور فراغت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کے سلسلہ میں بے شمار لوگ خسارہ میں رہتے ہیں (بخاری شریف) نیز یہ بھی فرمایا: ایک اچھے مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے(ترمذی)
ضیاع وقت کیا ہے؟ میرے خیال میں تو اس کی بہتر تشریح آج کے دور میں یہ ہوسکتی ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں خوامخوا ٹانگ اڑانا۔ اپنے فیلڈ کے علاوہ دوسرے شعبوں میں مہارت کے کھوکھلے دعوے کرنا۔ عجیب ہوا چلی ہے کہ لوگ سالہا سال اپنے مخصوص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے واسطے ریاضتیں کرتے ہیں، مشقتیں جھیلتے ہیں لیکن جیسے ہی کمالیت لے کر معاشرے میں آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ قوم کو کسی تعمیری راہ پر ڈال دے، الٹا مذہب اور نظریاتی مباحث میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ بلاشبہ ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی شعبۂ علم میں اپنے خیالات پیش کریں لیکن ساتھ ساتھ اس قید کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ آدمی جو بھی بات کرے دلیل کے ساتھ کرے۔ اس کے پیچھے ایک گہرا مطالعہ ہو اور مطالعے کا نچوڑ منضبط انداز میں ہو۔سرسری انداز اور محض اٹھکیلیوں کے واسطے مباحث کو چھیڑنا اس تیز رفتار دور میں حماقت کی سب سے بڑی دلیل بتائی جاتی ہے۔ 
مذہب ایک مقدس چیزہے جس کا کام انسان کو دنیا کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا تابع بنانا ہے۔ اسلام دیگر ادیان کی طرح صرف عبادات کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ کار ذاتی زندگی سے شروع ہوکر خاندان، سوسائٹی اور گلی محلے سے ہوکر ریاست اور معیشت کے ایوانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر آپ کا واسطہ کسی ایسے کم فہم سے پڑا ہو جو آپ کو مذہب کی تشریح ایک خاص فکر تک ہی محدود رکھنے پر تلا ہوا ہو تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کے طلسم سے نکل کر حق بات کی تلاش میں اپنی طاقت صرف کرو۔ ہم اس رواجی ذہن سے نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو ہم نے خود برسہا برس سے خود پر مسلط کیا ہے۔ ہم نے جب اسی ذہن کو مزید جمود کا عادی بنادیا تو تحقیق کی ضرورت کا احساس بھی ختم ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اپنی کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے اکثر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود پتلی گلی سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم اپنی محرومی کی ذمہ داری دوسروں کے سر تھوپ کر خود کو ذمہ سے فارغ سمجھتے ہیں۔ مولانا وحید الدین خاں بجا کہتے ہیں:’’دنیا میں جب بھی کسی کو کچھ ملتا ہے تو اس کی صلاحیت کی بناپر ملاتا ہے۔ اسی طرح جب بھی کسی سے کچھ چھنتا ہے تو خود اپنی کوتاہی کی بنا پر چھنتا ہے۔ اس دنیا میں اگر کچھ لوگ محرومی کا شکار ہوجائیں تو انہیں چاہئے کہ دوسروں کی شکایت میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ بلکہ خود اپنے اندر اس کے اسباب تلاش کریں اور اس کے مطابق اپنی عملی جدوجہد کا نقشہ بنائیں۔‘‘