Thursday, March 16, 2017

کیا آپ جانتے ہیں کہ ISO کیا ہے؟



انٹرنیشنل سٹینڈرڈ آرگنائزیشن(ISO)

کیا آپ جانتے ہیں کہ ISO کیا ہے؟

ہر کمپنی یہی چاہتی ہے کہ اس کا کاروبار خوب پھلے پھولے اور اس کے پراڈکٹس کو مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل ہو۔ گاہک بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک ایسی کمپنی کا مال خریدیں جس کی کوالٹی سٹینڈرڈ ہو۔کمپنیاں اس چیز کو ٹوٹل کوالٹی منیجمنٹ (TQM) کا نام دیتی ہیں۔کمپنی جب یہ سوچتی ہے کہ اس کے پراڈکٹس کو مارکیٹ میں پذیرائی حاصل ہو تو اس کے لیے کمپنی اپنی پیداواری مصنوعات کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔لیکن کوالٹی کی بہتری کا تصور ہر ایک آدمی کا اپنا ہوتا ہے جو ایک دوسرے بہت مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلا ایک سٹورکیپر پراڈکٹ کی کوالٹی کو جس طرح بہتر تصور کرتا ہے گاہک شایداس سے الگ طور پر اسے بہتر قرار دینے پر مصرہو۔
اس مقام پر’’ آئی ایس او 9000‘‘کام آتا ہے۔ یہ اصطلاح عالمی معیارات کے ایک سلسلے کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ کوالٹی کی ضمانت کی تعریف مہیا کرتا ہے۔ یہ نظام انٹرنیشنل آرگنائزیشن فاراسٹینڈرڈائزیشن (آئی ایس او)نے بنایا ہے اور دنیا میں 90ملکوں نے اسے اپنایا ہے۔ آئی ایس او میں تقریباً 100ممالک کے قومی معیارات کے نمائندگان شامل ہیں۔ اس ادارے کا مقصد دنیا بھر میں مصنوعات اور خدمات کے بین الاقوامی تبادلے کو فروغ دینا ہے اور دنیا بھر میں دانشورانہ، سائنسی، تکنیکی اور معاشی معاملات میں بین الاقوامی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ 
آئی ایس او(ISO) کا تعارف:
یہ ادارہ بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تاکہ تجارت کے معیار کو بہتر رکھا جاسکے اور ایک اچھے طریقے سے چیزوں کی پیداوار ہو۔
23 فروری 1947ء کو اس آرگنائزیشن نے بین الاقوامی انڈسٹری کے لیے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ اس آرگنائزیشن کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں ہے۔ 2013ء تک 164 ممالک میں اس تنظیم کا دائرہ کار وسیع ہوچکاہے۔ یہ پہلی تنظیم ہے جو بین الاقوامی اقتصادیات کے فروغ کے لیے عمل میں لائی گئی۔
ISO ایک غیر سرکاری ادارہ ہےاور اب تک اس کے ممبر ممالک کی تعداد 164 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ادارہ دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کے درمیان بہترین تجارت کے فروغ اور اس راستے میں پیش آنے والے مسائل کا حل نکالتا ہے۔ اس ادارے نے اب تک 20،000 کے قریب معیاری اشیاء کی تجارت کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا ہے جس میں فوڈ سیفٹی پروگرام کے علاوہ زراعت اور صحت کے مسائل بھی شامل ہیں۔

No comments: