Monday, March 20, 2017

کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟

کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟
تحریر: فرہاد علی
(حصہ دوم)
اسی عنوان کے تحت پچھلے کالم میں ہم نے مذہبی خصوصا فرقہ پرست مولویوں کی غلامی میں گرفتار لوگوں کا تذکرہ کیا تھا ۔ آج ہم سیاست دانوں کے بے دام غلاموں کو زیر بحث لائیں گے ۔
ربط و تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے سابقہ  کالم کا سرنامہ دوبارہ پیش خدمت ہے ۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ "جسمانی طور پر ہم میں سے ہر شخص آزاد ہے مگر تقریبا ہر ایک نے اپنی فکر اور عقل کسی نہ کسی کے پاس گروی رکھی ہے ۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے . عام طور پر جب فکری غلامی کی بات آتی ہے تو ہم انگریز اور انگریزی نظام کی بات کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تک انہیں خطوط پر استوار ہے جن کی بناء انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ ہمارا نظام عدلیہ انہیں کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ ہماری بیوروکریسی میں وہی سوچ برقرار ہے ۔ یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور یہ ہمارا قومی سطح کا فکری بحران ہے مگر اس کے علاوہ ہم انفرادی اور نچھلی سطح پر بھی فکری غلامی میں مبتلا ہیں اور یہ غلامی  زندگی کے ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے "
سیاست کے میدان میں اس غلامی کی داستانیں روز رقم ہوتی ہیں ۔ یہاں ایم کیو ایم کے سابق رہنما پاک سرزمین پارٹی کے بانی  مصطفی کمال کی ایک بات یاد آتی ہے ۔ مصطفی کمال کہتے ہیں کہ الطاف حسین اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کسی مخالف کے بارے میں کہتے تھے کہ فلاں  کو ٹوک دو ۔ یہ بیان میڈیا پر براہ راست چل رہا ہوتا ۔ جب میڈیا سے ہوتے ہوئے اس پر ہنگامہ کھڑا ہوتا تو ہم پوری پوری رات بیٹھ کر ڈکشنریاں چھانتے اور ٹوک دو کہ معنی ڈھونڈتے تاکہ اس کو صحیح ثابت کیا جا سکے ۔ یہی حالت ہر سیاسی کارکن کی ہے چاہے اس کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہو یا سیکولرزم کے علمبردار جماعتوں سے ہو ۔ اگر مولانا فضل الرحمن ایک بار کہہ دیں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے تو جمعیت کا ہر کارکن اس کو ثابت کرنا اور حرف آخر سمجھنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے لئے گھنٹوں بیٹھ کر بحث کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ چاہے اس کارکن کو عمران خان کے بیک گراوںڈ کا سرے سے علم ہی نہ ہو ۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات بھی عرض کردوں کہ ہم باہمی اختلافات کو ہمارے معاشرے کی روایتی ساس کی طرح اس نہج پر لے کر جاتے ہیں جہاں سے واپس لوٹنے کے راستے مسدود ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے لیڈروں کو سپورٹ کرنے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کو اگر اسی لیڈر نے مخالفین کے ساتھ اتحاد کی حامی بھرلی تو ہم دنیا کو اپنے سابقہ رویے کے بارے میں کیا منہ دکھائیں گے ۔ چنانچہ جب مولانا فضل الرحمن نے یہ کہا کہ ہر ایجنٹ غدار نہیں ہوتا اور جمعیت اور پی ٹی آئی نے بلدیاتی انتخابات میں بعض حلقوں میں اتحاد کیا تو دونوں پارٹیوں کے ان کارکنان کی حالت دیکھنے کی تھی جنہوں نے مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے اختلاف کو ذاتی جھگڑے کی طرح پیش کیا تھا ۔ ایسے لوگوں کی حالت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی تھی ۔

اسی طرح اگر عمران خان گھر آنے والے مہمانوں کی بے عزتی کرکے ان کو پھٹیچر کہہ دیں تو ہر انصافی اس کو عین حق سمجھنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے ۔ یہی حالت مراد سعید اور جاوید لطیف کے حالیہ جھگڑے کے وقت دیکھنے کو ملی ۔ بہت سارے ن لیگی کارکن جاوید لطیف کو سپورٹ کرتے دیکھے گئے حالانکہ انہوں نے انتہائی گھناونا طرز عمل اختیار کیا تھا ۔ جبکہ ایسے انصافی بھی کم نہیں تھے جنہوں نے مراد سعید کو فرشتہ ثابت کیا ۔ اس موقع پر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مراد سعید کی ماضی میں کی گئی زبان درازیوں پر تنقید کرتا ۔ یہی صورت حال ہر پارٹی کے کارکنان کی ہے ۔ پاکستان کو کھوکھلا کرنے والی پیپلز پارٹی کے جوشیلے عقیدت مند آج بھی جناب زرداری صاحب کو اس ملک کا آخری نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔
جب ایک پارٹی کوئی اچھا قدم اٹھاتی ہے تو مخالف پارٹی کا لیڈر اس کے کارنامہ کو کم تر ثابت کرنے کے لئے اس کا مذاق اڑاتا ہے جس طرح غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہہ کر ن لیگ کے مثبت اقدام کا مذاق اڑایا گیا ۔ اگر ہم فکری غلام نہ ہوتے تو اس موقع پر اپنے لیڈر سےاختلاف کرتے اور دوسری پارٹی کے اچھے اقدامات کی تحسین کرتے مگر ہم میں سے ہر کارکن اپنے لیڈر کے دماغ سے سوچتا ہے اور اسی کی بولی بولتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم نے اپنی عقل اور فکر اپنے لیڈروں کے پاس گروی رکھی ہے اور ہم سیاسی لیڈروں کے بے دام غلام ہیں ۔ جب ہم خود اپنی عقل سے سوچتے نہیں ، اپنی آنکھوں سے دیکھتے نہیں اور اپنی زبان سے بولتے نہیں تو یہی سوال سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟

No comments: