قوموں کا عروج وزوال
رواداری کی رِیت اور ایام کی الٹ پھیر:
یہود ونصاریٰ اور بدھ مت کے پیروکاروں سمیت سارے مذاہب نے لوگوں
کو رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان کرنے کی تلقین کی ہے۔ تاہم اسلام نے اس کی
جو تعلیم فرمائی ہے وہ اپنی ذات میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے تعلیم ہی
نہیں اپنے پیروکاروں کی عملی تربیت بھی فرمائی۔ ایسی تربیت جو دنیا کو امن وسکون
اور آشتی کا گہوارہ بناگئی۔ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے دنیا میں جب
اسلام کا ڈنکا بجایا تو پر امن زندگی کے ساتھ ساتھ قانون کی ایسی بالادستی عمل میں
آئی جس سے روگردانی کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ ایک وہ دورتھا جب حق دار کو اس کا
حق اسی صورت مل سکتا تھا جب اس کے پاس افرادی اور مادی قوت کی فراوانی ہوتی تھی۔
جو اس سے محروم تھا اسے اپنے حق سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔ عورت ذات کی کوئی
حیثیت نہیں تھی نہ اس کو متمدن زندگی گزارنے کا کوئی اختیار حاصل تھا۔ اس کی حیثیت
محض ایک رکھیل کی سی ہوتی تھی جس کو استعمال کرکے ویسے ہی چھوڑدیا جاتا ہے۔ اسلام
نے جب اپنے ضوفشاں کرنیں انحائے عالم میں پھیلائے تو قوموں کو سکون آگیا۔ مظلوموں
کی داد رسی ہوئی۔ ظالم کی تلوار نیام میں چلی گئی۔ عورت کو انصاف اور اپنے حق کے
حصول میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ عدل کا بول بالا ہوگیا۔ دنیا ایک سنہرے دور
میں داخل ہوگئی۔
دنیا کے اس کھلواڑ میں غالبیت کسی ایک قوم کو ہمیشہ کبھی
حاصل نہیں رہی۔ اس میدان میں آج کسی ایک نے بازی جیتی تو کل کوئی اور آکر بازی
اپنے نام کرگیا۔ ہار جیت اور غالب ومغلوب کا یہ کھیل جاری ہے اور جاری ہے گا۔
قوموں کی باہمی کشمکش اور عروج وزوال کی یہ رِیت اپنے آپ کو دہراتی رہے گی۔ قرآن
کریم نے اسی بازی گری کا نقشہ نہایت احسن انداز سے کھینچا ہے:
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ [آل عمران:
140]
یہی دن ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے ہیں۔
یورپ کل اور آج:
مولانا ندوی صاحبؒ رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault) کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"پانچویں صدی سے لے کر دسویں صدی تک یورپ پر گہری
تاریکی چھائی ہوئی تھی۔اور یہ تاریکی تدریجا گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی۔اس
دور کی بربریت اور وحشت زمانہ قدیم کی وحشت سے کئی درجہ زیادہ بڑھی چڑھی تھی۔کیوں
کہ اس کی مثال ایک بڑے تمدن کی لاش کی تھی جو سڑ گئی ہو۔اس تمدن کے نشانات مٹ رہے
تھے۔اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔وہ ممالک جہاں یہ تمدن برگ وبار لایا اور
گزشتہ زمانے میں اپنی انتہائی ترقی کو پہنچ گیا تھا جیسے اٹلی وفرانس ،وہاں تباہی
اور طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور دورہ تھا"
یورپ کی اس حالت کا نقشہ تو رابرٹ نے کھینچا اور اس کے زعم
میں آج یورپ کچھ زیادہ متمدن اور بامہذب ہے۔ لیکن اگر بنظر غائر آج کے یورپ کا
مطالعہ کیا جائے تو محض مادی ترقی کے علاوہ یورپ میں تہذیب کی کوئی جھلک نظر نہیں
آتی۔ وہاں آج بھی ہر اس ناجائز کام کو قانونی سرپرستی حاصل ہے جو تہذیب کے دائرے
سے ہٹ کر ہو۔ ہر اس فعل کو انہوں نے حرز جاں بنالیا ہے جس میں اخلاقیات کی حدیں
بری طرح پامال ہوتی ہوں۔
روم کی کہانی:
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کے معاشی نظام اور
بہترین طرز حکومت میں نہیں بلکہ ترقی کے میدان میں اخلاقیات کو ایک اہم مقام حاصل
ہے۔ رابرٹ بریفالٹ نے رومی سلطنت کے زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے:
رومی سلطنت کے زوال کا سبب وہاں بڑھتی ہوئی خرابیاں نہ
تھیں،بلکہ اصل برائی اور خرابی فساد وشر اور حقائق سے گریز کرنے کی عادت تھی۔ جو
اس سلطنت کے قیام میں روز اول سے ہی موجود تھی۔ کسی بھی انسانی ڈھانچے کی تعمیر جب
اس طرح کے کمزور بنیادوں پر کی جائے گی تو اس کے گرنے سے صرف ذہانتیں اور منصوبہ
بندیاں اسے نہیں بچا سکتی۔رومی سلطنت ایک چھوٹے سے طبقے کی راحت رسانی کے لیے عمل
میں آئی تھی جس کے حصول کے لیے اس چھوٹے طبقے نے عوام کا ہر طرح سے استحصال کیا۔
روم میں تجارت کی ترقی اور اس میں نئی راہیں پیدا کرنے کا گر ضرور موجود تھا لیکن
ان خوبیوں کی وجہ سے بنیادی طور پر کمزور معاشرے کو تباہی سے بچایا نہیں
جاسکا۔(ص70)
چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے
لیے نظریاتی سرحدات کا مضبوط ہونا ازحد ضروری ہے۔ ورنہ اس معاشرے کو کوئی بھی طاقت
زوال سے نہیں بچا سکتی۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ باطل میں سرے سے
ابھرنے کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ اگر کبھی دیکھو کہ باطل ابھر رہا ہے تو سمجھو کہ
ضرور اس نے کچھ خوبیاں اہل حق کی اپنائی ہیں۔ آج مغرب کی روزافزوں ترقی کو دیکھا
جائے تو یہی بات برحق معلوم ہوتی ہے کیوں کہ وہاں کے سارے قوانین ان اصولوں پر
مبنی ہیں جو دراصل اسلام کی دَین ہیں۔ لیکن چونکہ بے حیائی کے کلچر نے وہاں کے
معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے
اخلاقیات بری طرح زوال کی طرف گامزن ہیں۔
اسی طرح مولانا ندوی صاحب ڈاکٹر الفٹ بٹلر کے حوالے سےمصر
میں قائم رومی حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں:
مصر میں رومی حکومت کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ کسی
طرح عوام کی دولت کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے حاصل کیا جائے۔مصر میں ان کومحکوموں کی
معیار زندگی کی بلندی اور ان کی معاشی واخلاقی ترقی کا ذربرابر بھی خیال نہ
تھا۔مصر میں رومیوں کی حکومت ان پردیسیوں کی سی تھی جو اپنے محکوموں کے ساتھ صرف
جبر کا رویہ اپنانے کو روا رکھتے ہیں اور ان کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھنے کی
ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔(ص 71)
عالم اسلام نا اہل لیڈروں کے نرغے میں:
متعصب اور قوم پرست لیڈر جب اپنی قوم کو گرماتے ہیں تو ان
میں ڈر اور نفرت پیدا کرتے ہیں۔وہ انہی دو چیزوں سے قوم کے جذبات کو برانگیختہ
کرتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔عصبیت اور
قوم پرستی کی عفریت نے اسلامی دنیا کو اپنے پنجے میں اس طرح جکڑ کر رکھا ہے کہ اب
اس سے نکلنابھی کارے دارد ہے۔ آج بھی بعض اسلامی ممالک میں برادر اسلامی ملکوں کے
باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جبکہ وہی لوگ غیر اقوام کے سامنے
بچھے جارہے ہوتے ہیں۔ اسلام نے عصبیت کی
کس قدر مذمت کی ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جاسکتا ہے:
اسلام نے عالم انسانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک خدا
کے پیرو اوی حق کے حامی، دو شیطان کے پیروکار اور باطل کے حامی۔اسلام نے صرف شیطان
کے پیروکاروں اور ظالموں، فسق وفجور اور سرکشی کرنے والوں سے نفرت کرنے اور ان سے
جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ نفرت اور جنگ کے لیے اسلام نے باونڈری اور سرحدات وخطہ
ہائے ارضی کو بنیاد نہیں بنایا بلکہ اس کی بنیاد عقائد واعمال اور انسانیت کے لیے
نفع ومضرت پر ہے۔
امت مسلمہ کی قیادت کی ذمہ داریاں:
شیر شاہ سوری (م 952ھ) اپنے نظام الاوقات کا بڑا پابند تھا۔
اس کو پانچ برس کے لیے حکومت ملی لیکن اس زمانے میں اس نے بڑے بڑے کام کیے۔ نظام
الاوقات کچھ یوں تھا کہ تہائی رات کی بیداری پر غسل کرتے اور اس کے بعد نوافل ادا
کرتے۔ فجر سے پہلے اوراد ووظائف ختم کرتے۔ پھر امور سلطنت میں حسابات کی جانچ
پڑتال کرتے اور افسروں کو ضروری ہدایات دیتے۔ فجر کی نماز کو باجماعت اداکرنے کے
بعد مسنون اذکار کا اہتمام ہوتا۔ اتنے میں ارکان سلطنت حاضر ہوجاتے اور دن کے
باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوتا۔ دربار میں لوگ حاضر ہوتے ان کی ضروریات پوری کرتے
اور انعام واکرام وخلعت سے نوازتے ۔اس کے بعد کچہری لگا کر لوگوں کی شکایتیں سنتے
اور دادخواہوں کی دادرسی اور حاجت برآری کرتے۔ پھر فوج کے لیے قابل اور محنتی
امیدواروں کا انتخاب کرتے۔ اس کے بعد ملکی آمدنی اور مالیات کے شعبے کا معائنہ کرتے۔اس طرح کے دیگر
امور سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز،کھانا اور قیلولہ کرتے۔ قیلولے کے بعد پھر امور
سلطنت میں مشغول ہوجاتے۔ یہ نظم الاوقات سفروحضر میں اسی طرح ہوتا تھا۔ کہتے کہ
بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا پورا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔
ایک اسلامی سلطنت کے سربراہ کے لیے اپنے نظام الاوقات کو صحیح رخ پر بنانے اور پھر اس
کی پابندی نہایت ضروری ہے ورنہ قوم کی خدمت اور معاشرے کے اصلاح کے لیے جو سنہرا
موقع سربراہ کے پاس ہوتا ہے اس کی ضیاع کا اندیشہ ہوتا ہے اور ایک بار یہ موقع
ہاتھ سے جانے کے بعد کبھی بھی دوبارہ اس کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
قیادت کا زمام مغرب کے ہاتھ میں جانے پر کیا نقصان ہوا؟
اسلام نے انسانی معاشرے کو بام عروج تک پہنچایا۔ تمدن کی
ترقی کے ساتھ اخلاق وروحانیت نے بھی یکساں فروغ پایا۔ جاہلیت کے ڈسے ہوئے معاشرے
کو علم کا تریاق دے کر اسے لذت زیست اور مقصد زیست سے آشنا کیا۔ اخلاق وتربیت کے
شجر پر ظلم کی جو کلہاڑی چل رہی تھی، اسلام نے اس شجر کے گرد انصاف کا حصار بناکر
محفوظ بنادیا۔ دنیا جو شتر بے مہار کی طرح اندھے گڑھے کی طرف دوڑی جارہی تھی،
اسلام نے اسے صحیح رخ دے کر حقیقی منزل تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔
لیکن اچانک ایک خوفناک تبدیلی نے سارا کچھ تلپٹ کرکے رکھ
دیا۔ قیادت کی تبدیلی نے پچھلی پالیسی کو کالعدم قرار دے کر من چاہی روش اختیار
کی۔ وحی کی روشنی کو چھوڑ کر عقل وخواہش کو راست کا مشعل سمجھ کر اس کی پوجا پاٹ
شروع کی گئی۔ قوت اور بڑائی کے نشے میں چور مغربی قیادت نے صحیح وسقم کو بالائے
طاق رکھ کر حکومت کو چلانا شروع کیا۔ نتیجتا بے انصافی، جارحانہ قوم پرستی، غیر
محدود شخصی آزادی اور غیر فطری اعمال پروان چڑھنے لگے۔ مغربی معاشرے کو تو خراب
ہونا ہی تھا اس سیلاب نے بالعموم پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرقی علوم
کو استعمال میں لاکر مادی ترقی تو اپنائی گئی لیکن اس کے ساتھ ہٹ دھرمی، تعصب اور
حق سے آنکھیں چرانے کی وجہ سے انہوں نے دنیا کو دہکتی ہوئی آنکھ کا انگارہ بنادیا۔
دین الٰہی کا علمبردار اور دنیا کا محتسب:
رسول اللہ ﷺ نے میدان بدر میں فرمایا تھا:
اللهم إن تهلك هذه
العصابة لا تعبد في الأرض
[السنن الكبرى للإمام النسائي 9/ 14] ۔۔۔۔ اے اللہ! اگر تو اس جماعت کو ہلاک کردے گا تو پھر
تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے سارے نقائص کے باوجود یہ حقیقت
اب بھی اس طرح باقی ہے۔ جاہلیت دنیا کے لیے جو نقشہ رکھتی ہے اور جس نقشہ پر وہ آج
دنیا کو چلارہی ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی نقشہ ہے تو صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ اگر
چہ مسلمان خود اس کو بھولے ہوئے ہیں لیکن یہ نقشہ ابھی ضائع نہیں ہوا اور نہ کبھی
ضائع ہوسکتا ہے۔ مسلمان اپنے دین کی رو سے دنیا کے محتسب اور خدائی فوج دارہیں۔
جسدن وہ بیدار ہوں گے وہ اپنا فرض منصبی انجام دیں گےاور وہ مشرق ومغرب کی قوموں
کے لیے روز حساب ہوگا۔ انہیں کی خاکستر میں وہچنگاری دبی ہوئی ہے جو کسی نہ کسی دن بھڑک کر جاہلیت کے خرمن کو جلا کر خاک
کردے گی۔
علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو نظام جاہلی کے علمبردار وصدر
نشین ابلیس کی زبان سے ادا کروایا ہے۔ 1936ء کی مجلس شوریٰ میں شیاطین عالم نے جمع
ہوکر ان خطرات کو پیش کیا جو ابلیسی نظام کے لیے سخت تشویش اورپریشانی کا باعث ہے
اور جن کی طرف جلد متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک مشیر نے جمہوریت کا نام لیا اور اس
کو "جہانِ نو کا تازہ فتنہ" بتلایا۔ دوسرے نے اشتراکیت سے سخت خطرہ ظاہر
کیا اور ابلیس کو مخاطب کرکے کہا:
فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار ومرغزار
وجوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیروزبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
چنانچہ اپنے چیلے کی پوری بات سننے کے بعد ابلیس نے اس کو
مشورہ دیا کہ باقی نظریات تو پانی کے بلبلے ہیں جو ایک دن ختم ہوجائیں گے لیکن
اسلام کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو عالم میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔
اسلام کے عروج کا طویل سنہرا دور:
اسلام کی ضیا پاش روشنی کی بدولت دنیا کو حقیقی طورپر نشان
منزل نظر آگیا۔ مادی ترقی کو ثانوی حیثیت دے کر روحانی درجات کا حصول اولین
مقصدقرار دیا گیا۔ انفرادی نفع کی بجائے اجتماعی مفاد کی خاطر قربانی دینے کی رِیت
ڈالی گئی۔ غیر اخلاقی اور عقلی ودینی طور پر نامناسب رسوم ورواجوں کا خاتمہ کیا
گیا۔ انسان میں دوسرے انسانوں کا احترام اور ان کی اہمیت کی سوچ دال دی گئی۔ حکومت
اور سیاست کا بہترین انداز اپنایا گیا۔ امن وامان کو مادی اور روحانی ترقی کے لیے
شیئ اول قرار دے کر اس کو ممکن بنانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے۔ اور سب سے
بڑی بات یہ کہ ان سب قوانین اور اصول کو عملی طور اپنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا
نے ایک طویل دور تک اسلام کے سایہ عاطفت میں رہ کر امن اور ترقی کی زندگی گزاری۔
مسلمانوں کے پاس قانون الہی تھا جس کی بدولت وہ آگے بڑھنے
میں کوئی ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کو روز روز اپنے قوانین میں ترمیم کی
ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ حق اور انصاف کے علمبردار بنائے گئے تھے۔ ان کو اشتعال اور برہمی میں بھی
انصاف اور صداقت کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور اور نفس کا انتقام لینے کی اجازت نہیں
دی گئی۔انہیں قرآن کریم نے تاکید کی کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ
شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا
اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا
تَعْمَلُونَ [المائدة: 8]
"اے مومنو! انصاف کے ساتھ گواہی دینے پر آمادہ رہو اور
کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہیں چھوڑو۔ عدل کرو، یہی بات تقویٰ کے
زیادہ قریب ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو"
مسلمانوں کے حکمران یا خلیفہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی
تھی۔ ذامہ داریوں میں غفلت کوکسی بھی صورت گوارا نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ
مسلمان اس منصب سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ ان کو منصب دیا جاتا تھا
لیکن وہ قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں انسانوں کا معاشرتی اور تہذیبی
ترقی:
اسلام نے انصاف اور رواداری کو فروغ دیا۔ انسان کو اس کی
زندگی کا مقصد بتا دیا۔ معاشرہ کو پستی سے نکال کر ترقی کے راہ پر گامزن کیا۔ غیر
اخلاقی افعال واعمال کا قلع قمع کرکے ایک نئے انداز سے معاشرے کو روشناس کرایا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ
وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ
عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير} [الحجرات: 13]
اے لوگو! ہم نے
تمہیں ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس
لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے
زیادہ متقی ہو، یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا،ہر چیز سے باخبر ہے۔
اسی مضمون کو حضورﷺ نے اپنے زبان مبارک سے بھی بیان فرمایا
ہے:
يا أيها الناس أن ربكم واحد و إن أباكم واحد ألا لا
فضل لعربي على عجمي و لا لعجمي على عربي و لا لأحمر على أسود و لا أسود على أحمر
إلا بالتقوى إن أكرمكم عند الله أتقاكم[شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي 4/ 289]
اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے۔ اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔
خبردار کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں ہے اورنہ کسی عجمی کو کسی عربی پر،
نہ کسی گورے کوکالے پراور نہ کسی کالے کو گورے پر ، مگر تقوی کے لحاظ سے ۔ بے شک
تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
یہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کو یکسانیت کا درس
دے دیا ہے۔ خواہ مخوا کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت جتانے کا کوئی حق نہیں الا یہ کہ
وہ تقوی اور پرہیزگاری کے اعتبار سے سب سے اونچاہو۔
آج دنیا کو اس سچے دین کی سخت ضرورت ہے جو بے چینی کی فضا
کو امن وآشتی میں بدل سکتا ہے۔ جو بے یقینی کی جگہ سکون وراحت کی ضمانت دیتا ہے۔ اور بلاشبہہ وہ دین صرف اسلام ہی ہے۔